آیت 29
 

اَئِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ وَ تَقۡطَعُوۡنَ السَّبِیۡلَ ۬ۙ وَ تَاۡتُوۡنَ فِیۡ نَادِیۡکُمُ الۡمُنۡکَرَ ؕ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی محافل میں برے کام کرتے ہو؟ پس ان کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ وہ کہیں: ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اَئِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ: کیا تم شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو۔ چونکہ اس قوم میں یہ بدفعلی اس قدر عام ہو گئی کہ کسی مہمان کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔

۲۔ وَ تَقۡطَعُوۡنَ السَّبِیۡلَ: اس جملے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ تم افزائش نسل کا راستہ روکتے ہو چونکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے اور مردوں کے پاس جانے سے نسل کشی ہو جاتی ہے۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: یہ لوگ رہزنی کرتے اور راہ گزر مسافروں کو پتھر مارتے تھے۔ جسے پتھر لگ جاتا وہ اس کا ہو جاتا۔ اس کا مال چھین لیتا، اس کے ساتھ بدفعلی کرتا تھا اور تین درہم کا جرمانہ بھی اس پر لگاتا۔ اس فیصلے کے لیے ان کے پاس ایک قاضی ہوتا تھا۔

قوم لوط کی بستی چونکہ شام جانے والے قافلوں کے راستے پر واقع تھی وہ ان قافلوں پر رہزنی کرتے تھے۔

۳۔ وَ تَاۡتُوۡنَ فِیۡ نَادِیۡکُمُ الۡمُنۡکَرَ: وہ اس بدکاری کو پوشیدہ طور پر نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے محفلیں جماتے تھے جیسا کہ آج کل پکچر گیلری، سینما اور میوزک ہال وغیرہ میں بجا لائی جاتی ہے اور فحاشی اور بے حیائی پر مشتمل بے تحاشا چینلز نے تو شرم و حیا کا مفہوم و مصداق بدل کر رکھ دیا ہے۔

۴۔ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ: حضرت لوط علیہ السلام کی اس نصیحت کے جواب میں وہ کہتے ہیں: اگر آپؑ اپنے دعوائے نبوت میں سچے ہیں اور عذاب آنے کی جو آپ خبر دے رہے ہیں اس میں آپ سچے ہیں تو وہ عذاب لے آئیں۔


آیت 29