وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللّٰہِ ٭۟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۸۱﴾٪

۲۸۱۔ اور اس دن کا خوف کرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہاں ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪ وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ اَنۡ یَّکۡتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلۡیَکۡتُبۡ ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا اَوۡ لَا یَسۡتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلۡیُمۡلِلۡ وَلِیُّہٗ بِالۡعَدۡلِ ؕ وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰىہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ؕ وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ اَقۡوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَرۡتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمۡ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَکۡتُبُوۡہَا ؕ وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ اِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۲۸۲﴾

۲۸۲۔ اے ایمان والو! جب کسی معینہ مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ دیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ تحریر کرے اور جسے اللہ نے لکھنا سکھایا اسے لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے، پس وہ دستاویز لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس کے ذمے قرض ہے اور اسے اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنی چاہیے لیکن اگر قرضدار کم عقل یا ضعیف یا مضمون لکھوانے سے عاجز ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے، پھر تم لوگ اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو (گواہ بناؤ) جن گواہوں کو تم پسند کرو، تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے اور جب گواہی کے لیے گواہ طلب کیے جائیں تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت کے تعین کے ساتھ اسے لکھنے میں تساہل نہ برتو، یہ بات اللہ کے نزدیک قرین انصاف ہے اور گواہی کے لیے زیادہ مستحکم ہے اور اس سے تم اس بات کے زیادہ نزدیک ہو جاتے ہو کہ شک و شبہ نہ کرو، مگر یہ کہ تم آپس میں جو دست بدست تجارتی معاملات کرتے ہو ان کے نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ جب خرید و فروخت کیا کرو تو گواہ بنا لیا کرو اور کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہو گی اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں تعلیمات سے آراستہ فرماتا ہے اور اللہ تو ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ ؕ فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ؕ وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ﴿۲۸۳﴾٪

۲۸۳۔ اور اگر تم حالت سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا میسر نہ آئے تو قبضے کے ساتھ رہن پر معاملہ کرو، اگر تم ایک دوسرے پر اعتبار کرو تو جس پر اعتبار کیا جائے اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت ادا کرے اور اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرو اور شہادت نہ چھپاؤ اور جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہوتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے۔

282۔283۔ سابقہ آیات میں سودی قرض اور سودی معاملات کو نا جائز اور حرام قرار دیا گیا۔ اب غیر سودی قرض (قرض حسنہ) کے بارے میں ایک نہایت جامع اور دقیق قانون وضع کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے آرٹیکل درج ذیل ہیں: 1۔ قرض میں مدت معین ہو تو اسے دَین کہتے ہیں۔ لیکن اگر مدت معین نہ ہو تو قرض کہتے ہیں۔ 2۔ قرض اور اس کی مدت کے بارے میں دستاویز تحریر کرنی چاہیے تاکہ قرض کی ادائیگی اور مدت کے تعین کے بارے میں نزاع واقع ہونے کی وجہ سے حقوق ضائع نہ ہو جائیں: فَاکۡتُبُوۡہُ ۔ 3۔ کاتب کو عادل ہونا چاہیے: وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ 4۔ کاتب کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ کتابت سے انکار کرے وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ 5۔اس دستاویز کی تحریر میں قرضدار املاء کرائے کہ قرض کی مقدار کیا ہے اور مدت کتنی ہے تاکہ آئندہ ادائیگی کے وقت اس پر حجت واضح ہو جائے اور وہ بہانہ جوئی نہ کر سکے: ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ ۔ 6۔ املاء میں کسی قسم کی غیر حقیقی بات نہ ہو جس سے قرض خواہ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو: وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ۔ 7۔ قرض لینے والا اگر دیوانہ ہو تو اس کا ولی یا سرپرست املاء کرائے۔ 8۔ قرضدار اگر ضعیف العقل ہو تو اس کا ولی املاء کرائے گا۔ 9۔ قرضدار اگر مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو ولی املاء کرائے گا۔ 10۔ گواہ قابل اعتماد ہوں: مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ کے معنی بعض نے یہ کیے ہیں: اگر ایک منحرف ہو جائے تو دوسری نصیحت کرے۔ چونکہ عورتیں احساسات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ 11۔ گواہ جب گواہی کے لیے طلب کیے جائیں تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے: َوَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ ۔ 12۔ قرض تھوڑا ہو یا زیادہ، اسے ضبط تحریر میں لانا چاہیے: وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ ۔ 13۔ جب معاملہ قرض کا نہ ہو بلکہ نقد ہو تو ضبط تحریر میں لانا ضروری نہیں ہے: اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً ۔ 14۔ نقد معاملات میں بھی گواہ بنا لینا چاہیے : وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۔ 15۔ کاتب اور گواہ کو حق گوئی کے جرم میں کسی فریق کی طرف سے کوئی نقصان یا ضرر نہ پہنچایا جائے: وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۔ 16۔ اگر کسی وجہ سے (مثلا سفرمیں) کاتب میسر نہ ہو تو قرض لینے والا قرض خواہ کے پاس کوئی چیز گروی رکھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ رہن کا معاملہ صرف سفر سے مشروط ہے اور نہ یہ شرط ہے کہ لکھنا ممکن نہ ہو۔ 17۔ اگر طرفین کو ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو دستاویز لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 18۔ گواہی چھپانا بڑا گناہ ہے۔ ایسا کرنا قلب کی بیماری، مردہ ضمیری اور ایمان سے محرومی کی علامت ہے۔

لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۸۴﴾

۲۸۴۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور تم اپنے دل کی باتیں ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تم سے حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

284۔ معاملات میں ایک جامع دستور عنایت فرما کر اسلامی قوانین کے ظاہری نفاذ کے ساتھ ساتھ باطنی نفاذ کی بھی ضمانت دی جا رہی ہے جو اسلامی قوانین کا خاصہ ہے۔ معاشرے میں نفاذ احکام کے لیے ظاہری اور انتظامی ضمانت کے ساتھ قلب و روح کو بھی نفاذ احکام کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ مروجہ قوانین میں صرف ظاہری اور انتظامی مواخذہ ہو سکتا ہے، مگر اسلامی قوانین میں جہاں ظاہری کردار کا محاسبہ ہوتا ہے، وہاں قلبی اور اندرونی گناہوں کا بھی محاسبہ ہوتا ہے۔ یہ محاسبہ صرف نیت پر مبنی نہیں ہو گا بلکہ ان اعمال کا محاسبہ بھی ہو گا جن کی خوبی یا بدی نیت سے مربوط ہے یا ان کی حقیقت صاحب کردار کے دل میں مخفی ہے۔ اول الذکر کی مثال انفاق ہے جو ریا اور شہرت طلبی کی نیت سے بھی ہوتا ہے اور فی سبیل اللہ بھی۔ ثانی الذکر کی مثال گواہی ہے جو حق کی بھی ہوتی ہے اور ناحق کی بھی۔ لہٰذا گواہی جھوٹی ہونے کی صورت میں گواہ کا محاسبہ ہو گا۔ یہ آیت ان احادیث سے متصادم نہیں ہے جن میں فرمایا گیا ہے کہ گناہ کی نیت، گناہ نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے: اِنّما الْمُرَادَ بالآیہ مَا یَتَنَاوَلُہٗ الْاَمْرُ وَ النَّہْیُ مِنَ الْاِعْتَقَادَاتِ وَ الْاِرَادَاتِ و غیر ذلک مِمَّا ھَوَ مَسْتُوْرٌ عَنَّا (بحار الانوار 7: 225) اس سے مراد وہ پوشیدہ اعتقادات اور ارادے ہیں جن کے بارے میں امر و نہی وارد ہوئی ہے۔

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ﴿۲۸۵﴾

۲۸۵۔ رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی، سب اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور وہ کہتے ہیں) ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی، ہمارے رب ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

285۔ ایمانِ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اپنے وجود کی طرح اس پر ایمان ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتا دیا ہے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم، وحی کو ظاہری حواس سے نہیں بلکہ اپنے پورے وجود سے درک فرماتے تھے۔

انسان پر ذمہ داری اور مسؤلیت اس کی طاقت کے مطابق عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ کم عقل کی بہ نسبت عاقل اور کم علم کی بہ نسبت عالم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دوسرے جملے میں ارشاد فرمایا : ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ غیر کے اعمال کی ذمے داری اس پر عائد نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی خود اس کے اپنے اعمال کی ذمے داری کسی اور پر عائد ہوتی ہے۔ مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا : ایک تشریح یہ ہے: جس گناہ کی سزا کا بوجھ اٹھانے کی ہم طاقت نہیں رکھتے وہ ہم پر نہ ڈال۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: فی آخر سورۃ البقرۃ آیات انھن قرآن انھن دعاء انھن یرضین الرحمن۔ سورہ بقرہ کے آخر میں چند آیات ہیں جو قرآن بھی ہیں اور دعا بھی اور اللہ کی خوشنودی کا باعث بھی ہیں۔

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۸۶﴾٪

۲۸۶۔ اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجام بھی اسی کو بھگتنا ہے، ہمارے رب!ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو اس کا مواخذہ نہ فرما، ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈال دیا تھا، ہمارے رب! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ، ہمارے رب! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مالک ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔