لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۸۴﴾

۲۸۴۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور تم اپنے دل کی باتیں ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تم سے حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

284۔ معاملات میں ایک جامع دستور عنایت فرما کر اسلامی قوانین کے ظاہری نفاذ کے ساتھ ساتھ باطنی نفاذ کی بھی ضمانت دی جا رہی ہے جو اسلامی قوانین کا خاصہ ہے۔ معاشرے میں نفاذ احکام کے لیے ظاہری اور انتظامی ضمانت کے ساتھ قلب و روح کو بھی نفاذ احکام کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ مروجہ قوانین میں صرف ظاہری اور انتظامی مواخذہ ہو سکتا ہے، مگر اسلامی قوانین میں جہاں ظاہری کردار کا محاسبہ ہوتا ہے، وہاں قلبی اور اندرونی گناہوں کا بھی محاسبہ ہوتا ہے۔ یہ محاسبہ صرف نیت پر مبنی نہیں ہو گا بلکہ ان اعمال کا محاسبہ بھی ہو گا جن کی خوبی یا بدی نیت سے مربوط ہے یا ان کی حقیقت صاحب کردار کے دل میں مخفی ہے۔ اول الذکر کی مثال انفاق ہے جو ریا اور شہرت طلبی کی نیت سے بھی ہوتا ہے اور فی سبیل اللہ بھی۔ ثانی الذکر کی مثال گواہی ہے جو حق کی بھی ہوتی ہے اور ناحق کی بھی۔ لہٰذا گواہی جھوٹی ہونے کی صورت میں گواہ کا محاسبہ ہو گا۔ یہ آیت ان احادیث سے متصادم نہیں ہے جن میں فرمایا گیا ہے کہ گناہ کی نیت، گناہ نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے: اِنّما الْمُرَادَ بالآیہ مَا یَتَنَاوَلُہٗ الْاَمْرُ وَ النَّہْیُ مِنَ الْاِعْتَقَادَاتِ وَ الْاِرَادَاتِ و غیر ذلک مِمَّا ھَوَ مَسْتُوْرٌ عَنَّا (بحار الانوار 7: 225) اس سے مراد وہ پوشیدہ اعتقادات اور ارادے ہیں جن کے بارے میں امر و نہی وارد ہوئی ہے۔