وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ ؕ فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ؕ وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ﴿۲۸۳﴾٪

۲۸۳۔ اور اگر تم حالت سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا میسر نہ آئے تو قبضے کے ساتھ رہن پر معاملہ کرو، اگر تم ایک دوسرے پر اعتبار کرو تو جس پر اعتبار کیا جائے اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت ادا کرے اور اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرو اور شہادت نہ چھپاؤ اور جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہوتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے۔

282۔283۔ سابقہ آیات میں سودی قرض اور سودی معاملات کو نا جائز اور حرام قرار دیا گیا۔ اب غیر سودی قرض (قرض حسنہ) کے بارے میں ایک نہایت جامع اور دقیق قانون وضع کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے آرٹیکل درج ذیل ہیں: 1۔ قرض میں مدت معین ہو تو اسے دَین کہتے ہیں۔ لیکن اگر مدت معین نہ ہو تو قرض کہتے ہیں۔ 2۔ قرض اور اس کی مدت کے بارے میں دستاویز تحریر کرنی چاہیے تاکہ قرض کی ادائیگی اور مدت کے تعین کے بارے میں نزاع واقع ہونے کی وجہ سے حقوق ضائع نہ ہو جائیں: فَاکۡتُبُوۡہُ ۔ 3۔ کاتب کو عادل ہونا چاہیے: وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ 4۔ کاتب کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ کتابت سے انکار کرے وَ لَا یَاۡبَ کَاتِبٌ 5۔اس دستاویز کی تحریر میں قرضدار املاء کرائے کہ قرض کی مقدار کیا ہے اور مدت کتنی ہے تاکہ آئندہ ادائیگی کے وقت اس پر حجت واضح ہو جائے اور وہ بہانہ جوئی نہ کر سکے: ۚ وَ لۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ ۔ 6۔ املاء میں کسی قسم کی غیر حقیقی بات نہ ہو جس سے قرض خواہ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو: وَ لَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ۔ 7۔ قرض لینے والا اگر دیوانہ ہو تو اس کا ولی یا سرپرست املاء کرائے۔ 8۔ قرضدار اگر ضعیف العقل ہو تو اس کا ولی املاء کرائے گا۔ 9۔ قرضدار اگر مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو ولی املاء کرائے گا۔ 10۔ گواہ قابل اعتماد ہوں: مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ کے معنی بعض نے یہ کیے ہیں: اگر ایک منحرف ہو جائے تو دوسری نصیحت کرے۔ چونکہ عورتیں احساسات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ 11۔ گواہ جب گواہی کے لیے طلب کیے جائیں تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے: َوَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ ۔ 12۔ قرض تھوڑا ہو یا زیادہ، اسے ضبط تحریر میں لانا چاہیے: وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ ۔ 13۔ جب معاملہ قرض کا نہ ہو بلکہ نقد ہو تو ضبط تحریر میں لانا ضروری نہیں ہے: اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً ۔ 14۔ نقد معاملات میں بھی گواہ بنا لینا چاہیے : وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۔ 15۔ کاتب اور گواہ کو حق گوئی کے جرم میں کسی فریق کی طرف سے کوئی نقصان یا ضرر نہ پہنچایا جائے: وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۔ 16۔ اگر کسی وجہ سے (مثلا سفرمیں) کاتب میسر نہ ہو تو قرض لینے والا قرض خواہ کے پاس کوئی چیز گروی رکھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ رہن کا معاملہ صرف سفر سے مشروط ہے اور نہ یہ شرط ہے کہ لکھنا ممکن نہ ہو۔ 17۔ اگر طرفین کو ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو دستاویز لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 18۔ گواہی چھپانا بڑا گناہ ہے۔ ایسا کرنا قلب کی بیماری، مردہ ضمیری اور ایمان سے محرومی کی علامت ہے۔