اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۲۷۱﴾

۲۷۱۔ اگر تم علانیہ خیرات دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ طور پر اہل حاجت کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور یہ تمہارے کچھ گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

271۔ جو تم خرچ کرتے ہو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے اور اگر دفع تہمت مقصود ہو تو اعلانیہ انفاق کرنے کو بھی اچھا عمل قرار دیا، ورنہ پوشیدہ طور پر انفاق سے عمل کے خالص ہونے کا زیادہ امکان ہے اور محتاج کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔

لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۷۲﴾

۲۷۲۔ آپ کے ذمے نہیں ہے کہ انہیں (جبراً) ہدایت دیں بلکہ خدا ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو بھی مال خرچ کرو گے اس کا فائدہ تم ہی کو ہے اور تم صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرو گے اور جو مال تم خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا اجر دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔

لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿۲۷۳﴾٪ ۞ٙ

۲۷۳۔ ان فقراء کے لیے (خرچ کرو) جو راہ خدا میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ وہ (معیشت کے لیے) زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے، ناواقف لوگ ان کی حیا و عفت کی بنا پر انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، حالانکہ ان کے قیافے سے تم ان (کی حاجت مندی) کو پہچان سکتے ہو، وہ تکرار کے ساتھ نہیں مانگتے اور جو مال تم خرچ کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔

273۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے راہ خدا میں اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ذاتی معیشت کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ زمان رسالت میں کچھ لوگ ایسے تھے جو ہمہ وقت رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ہوتے تھے اور انہیں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعض اہم کاموں کے لیے مختلف علاقوں میں بھیجتے تھے۔ ہمارے زمانے میں دینی طالب علم اور ہمیشہ دینی امور کے لیے کام کرنے والے لوگ اس کے مصداق ہیں۔ ثانیاً وہ لوگ اس مصرف کے مصداق ہیں جو راہ خدا میں خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے مال و متاع سے محروم ہو گئے ہوں یا وہ لوگ جو بیماری کی وجہ سے کسب معاش کے قابل نہ رہے ہوں۔

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۲۷۴﴾ؔ

۲۷۴۔جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

274۔ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ علیہ السلام کے پاس صرف چار درہم تھے۔ آپ علیہ السلام نے ان میں سے ایک درہم رات کو، ایک دن کو، ایک علانیہ اور ایک چھپا کر صدقہ دیا۔ اس روایت کے راوی ابن عباس ہیں اور ابن عباس سے درج ذیل راویوں نے روایت کی ہے: 1۔ ضحاک 2۔ مجاہد 3۔ ابو صالح۔ ملاحظہ فرمائیں : شواہد التنزیل 1: 140 تا 149، الکشاف۔ اسباب النزول۔ تفسیر کبیر رازی 7 : 89۔ الدر المنثور 1 : 642۔

اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۷۵﴾

۲۷۵۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ﴿۲۷۶﴾

۲۷۶۔ اللہ سود کو نا پائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۲۷۷﴾

۲۷۷۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾

۲۷۸۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔

275۔278۔ قرآن نے سود کو صدقے کے مقابلے میں ذکر کیا ہے کیونکہ صدقے کے پیچھے ایک ایثار پسند، انسانی قدروں کا مالک اور پاکیزہ نفس انسان موجود ہے، جبکہ سود خوری کے پیچھے ایک مفاد پرست، درندہ صفت انسان موجود ہے۔ صدقہ دینے والا اپنے خون پسینے کی کمائی سے دوسروں کا دکھ درد بانٹتا ہے جبکہ سود خور دوسروں کے خون پسینے میں اپنا لقمہ تر کرتا ہے۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ سود اور تجارت میں درج ذیل اخلاقی اور معاشی فرق موجود ہیں۔ ٭ تجارت میں منافع بازار کے اتار چڑھاؤ سے مربوط ہے، اس لیے بائع اور مشتری دونوں اقتصادی میدان میں فعال ہوتے ہیں، جبکہ سود میں سرمائے کا منافع یقینی ہے اور صاحب سرمایہ غیر فعال ہوتا ہے، صرف محنت کرنے والا ہی خطرہ مول لیتا ہے۔ ٭ تجارت میں بائع اور مشتری دونوں کے لیے منافع احتمالی ہے، جبکہ سود میں صرف محنت کا منافع احتمالی ہے اور سرمائے کا منافع یقینی ہے۔

٭ تجارت میں سرمائے کے ساتھ محنت بھی ہوتی ہے، جبکہ سود میں رقم سود پر دے کر دوسروں کی محنت پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ ٭سودی نظام میں سرمایہ کام دے یا نہ دے ہر صورت میں صاحب سرمایہ اپنی اجرت وصول کر لیتا ہے، جبکہ محنت کو ہر صورت میں اجرت نہیں ملتی۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ سودی نظام میں سرمایہ محنت پر مسلط ہے۔ اگر یہی رعایت محنت کو مل جائے تو بھی غیر عادلانہ ہے۔ ٭ قرض عینیت سے نکل کر ذمہ پر آتا ہے، یعنی قرض دینے والا عین مال کا مالک نہیں رہتا۔ مثلاً اگر زید نے عمر سے ایک لاکھ روپیہ قرض لیا تو عمر عین اس ایک لاکھ کا مالک نہ رہا، بلکہ اس عین مال کا زید مالک بن گیا ہے، البتہ یہ زید کے ذمے واجب الادا ہے۔ یعنی قرض عین سے منتقل ہو کر ذمہ پر آتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ رقم کا وجود عینی نفع دیتا ہے، جس کا عمر مالک نہیں رہا، چنانچہ اگر عین مال تلف ہو جائے تو زید کا مال تلف ہوا، عمر کا مال تو زید کے ذمے ہے۔ عین مال پر مرتب ہونے والے مثبت اور منفی اثرات سے صرف زید متاثر ہو گا۔ لیکن سود خور کے پاس کوئی منطقی دلیل نہیں ہوتی جب عین سرمایہ تلف ہو جائے تو سود خور کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ تلف ہونے والا مال میرا نہیں ہے جو صحیح بھی ہے، لیکن جب عین سرمایہ منافع دیتا تھا تو کہتا ہے کہ میرا مال تھا جس نے منافع دیا۔ قرآن نے سچ فرمایا ہے کہ سود خور خبطی ہوتے ہیں۔ یہ ساری باتیں صرف پیداواری قرض سے مربوط ہیں

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَکُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِکُمۡ ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۷۹﴾

۲۷۹۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔

279۔ سود کی حرمت کا فیصلہ کن حکم صادر ہوتا ہے۔ سابقہ آیت میں اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ کی تعبیر اختیار فرما کر اسے ایمان سے مربوط گردانا گیا اور اس آیت میں سود ترک نہ کرنے کی صورت کو اللہ اور رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا گیا۔یعنی سود ترک نہ کرنا اسلامی نظام کے ساتھ بغاوت ہے۔ اسلامی معاشرے میں طبقاتی فرق پیدا کر کے اس معاشرے کو داخلی جنگ سے دو چار کرنے والا اللہ اور رسول سے جنگ کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ عسکری اقدام کیا جائے گا۔ البتہ توبہ کرنے کی صورت میں اصل سرمائے کو تحفظ ملے گا اور اصل سرمایہ اس کو ملے گا، چونکہ یہ خطاب مسلمانوں سے ہے اور مسلمان کا مال محترم ہے۔

وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸۰﴾

۲۸۰۔اور ( تمہارا قرضدار) اگر تنگدست ہو تو کشائش تک مہلت دو اور اگر سمجھو تو معاف کر دینا ہی تمہارے لیے بہتر ہے۔

280۔ نزول آیت کے زمانے میں یہ طریقہ رائج تھا کہ قرض کی ادائیگی بر وقت ممکن نہ ہو تو مزید مہلت دینے کے لیے سود میں اضافہ کرتے تھے، اسلامی نظام میں قرض کی ادائیگی ممکن نہ ہونے کی صورت میں مہلت مل جائے گی، اس مہلت کے عوض کوئی اضافہ نہ ہو گا۔