انبیاء کے ایمان


اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ﴿۲۸۵﴾

۲۸۵۔ رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی، سب اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور وہ کہتے ہیں) ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی، ہمارے رب ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

285۔ ایمانِ رسول ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اپنے وجود کی طرح اس پر ایمان ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتا دیا ہے کہ رسول ﷺ، وحی کو ظاہری حواس سے نہیں بلکہ اپنے پورے وجود سے درک فرماتے تھے۔

انسان پر ذمہ داری اور مسؤلیت اس کی طاقت کے مطابق عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ کم عقل کی بہ نسبت عاقل اور کم علم کی بہ نسبت عالم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دوسرے جملے میں ارشاد فرمایا : ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ غیر کے اعمال کی ذمے داری اس پر عائد نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی خود اس کے اپنے اعمال کی ذمے داری کسی اور پر عائد ہوتی ہے۔ مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا : ایک تشریح یہ ہے: جس گناہ کی سزا کا بوجھ اٹھانے کی ہم طاقت نہیں رکھتے وہ ہم پر نہ ڈال۔ رسول کریم ﷺ سے روایت ہے: فی آخر سورۃ البقرۃ آیات انھن قرآن انھن دعاء انھن یرضین الرحمن۔ سورہ بقرہ کے آخر میں چند آیات ہیں جو قرآن بھی ہیں اور دعا بھی اور اللہ کی خوشنودی کا باعث بھی ہیں۔