آیت 281
 

وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِیۡہِ اِلَی اللّٰہِ ٭۟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۸۱﴾٪

۲۸۱۔ اور اس دن کا خوف کرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہاں ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

تفسیر آیات

سود کی ممانعت اور اس کے ارتکاب کی قانونی عقوبت بیان فرمانے کے بعد ایمان والوں کے ضمیر اور شعور کو بھی بیدار کیا گیا ہے کہ تقویٰ نفاذ شریعت کے لیے ایک پہرے دار کی حیثیت رکھتا ہے، جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عدالت، متقی کا ضمیر ہے، جہاں بلا تاخیر فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ یہاں نہ کسی کی سفارش کام آتی ہے اور نہ ہی کسی کا زور چلتا ہے۔ یہ عالم آخرت میں لگنے والی اللہ کی عدالت کا ایک دنیاوی نمونہ ہے۔

ایک قول کے مطابق یہ آیت رسول کریم (ص) پر نازل ہونے والی سب سے آخری آیت ہے۔

احادیث

مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں:

لَعْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِی الرِّبَا خَمْسَۃً: آکِلَہُ، وَ مُؤْکِلَہُ، وَ شَاھِدَیْہَ وَ کَاتِبَہُ ۔ {الوسائل ۱۸ : ۱۲۷}

رسول کریم (ص) نے سود کے سلسلہ میں پانچ افراد پر لعنت بھیجی ہے: کھانے والے، کھلانے والے، ربویٰ معاہدے کے دونوں گواہوں اور سود کی تحریر لکھنے والے پر۔

اہم نکات

۱۔ تقویٰ نفاذ شریعت کا ضامن ہے، جو اہل ایمان کے ساتھ ہر وقت اور ہر جگہ موجود رہتا ہے: وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا ۔۔۔۔

۲۔ احکام شریعت کی مخالفت کر نے والا دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں ہرگز نہیں بچ سکے گا: وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا۔۔۔ مَّا کَسَبَتۡ ۔۔۔۔


آیت 281