وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل انجام دیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف حقیقی طور پر رجوع کرتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور (عباد الرحمن وہ ہیں) جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ باتوں سے ان کا گزر ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔

72۔ جھوٹی شہادت دینے میں حقوق کا ضیاع ہے اور ظلم کی کمک۔ جب مومن کا گزر کسی لغویات اور بیہودگی سے ہو جائے تو اپنا دامن بچا کر شریفانہ طریقے سے اس سے گزرجاتا ہے جیسے کسی متعفن مردار کے پاس سے گزر جاتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور وہ لوگ جنہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

74۔ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا : یعنی ہمیں پرہیزگاروں کا ہر اول دستہ بنا دے کہ ہم آنے والوں کے لیے تقویٰ کی مثال بن جائیں، جیسا کہ حکم ہے: فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (بقرہ:148) نیک کاموں میں سبقت حاصل کرو۔

اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ۷۵﴾

۷۵۔ ایسے لوگوں کو ان کے صبر کے صلے میں اونچے محل ملیں گے اور وہاں ان کا استقبال تحیت اور سلام سے ہو گا۔

75۔ گزشتہ آیات میں اللہ کے بندوں کے یہ اوصاف بیان ہوئے: 1۔ چال میں اعتدال 2۔ جاہلوں سے سلام کے علاوہ نہ الجھنا 3۔ رات کو عبادت کرنا 4۔ عذاب سے نجات کی دعا کرنا 5۔ خرچ میں اعتدال اپنانا 6۔ شرک سے اجتناب کرنا 7۔ قتل کا ارتکاب نہ کرنا 8۔ زنا کا ارتکاب نہ کرنا 9۔ جھوٹی گواہی نہ دینا 10۔ لغو اور بیہودہ کاموں سے شریفانہ انداز سے گزر جانا 11۔ آیات الہٰی سے نصیحت حاصل کرنا 12۔صالح اولاد اور اپنے لیے، تقویٰ و پرہیزگاری میں رہبرانہ کردار ادا کرنے کی توفیق کی دعا کرنا۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا﴿۷۶﴾

۷۶۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، بہت ہی عمدہ ٹھکانا اور مقام ہے۔

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا﴿٪۷۷﴾ ۞ٙ

۷۷۔ کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی۔

77۔ یعنی تم تکذیب کے مرتکب ہو چکے ہو اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو اللہ تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ نجات کے لیے واحد ذریعہ دعا ہے۔ اگر دعا نہیں ہے تو تمہارا کوئی وزن نہیں ہے۔ بندگی سے انسان کو قدر و قیمت ملتی ہے اور دعا کے ذریعے بندگی مل جاتی ہے۔

اس آیت کے دوسرے معنی یہ کیے ہیں کہ اگر تمہاری عبادت نہ ہوتی تو تمہارا رب تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ تیسرے معنی یہ کیے ہیں: اگر تمہارے رب کی طرف سے دعوت الی الحق نہ ہوتی تو تمہاری پرواہ نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کر کے اس دعوت کو ٹھکرا دیا ہے، لہٰذا اب تمہاری کوئی قیمت نہیں رہی۔ یہ تیسرے معنی مذکورہ آیت کے ساتھ زیادہ مربوط ہیں۔