تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا﴿۶۱﴾

۶۱۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں ایک چراغ اور روشن چاند بنایا۔

61۔ بُرُوۡجً یعنی ستارے، جو آسمان پر چمکتے ہیں۔ برج ظہور کے معنوں میں بیشتر استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے عورتوں کی زیب و زینت ظاہر کرنے کو تبرج کہتے ہیں۔ لہٰذا چونکہ آسمان میں سب سے زیادہ ظہور ستاروں کو حاصل ہے، اسی لیے بروج سے مراد ستارے لینا لغت قرآن کے زیادہ موافق ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور وہی ہے جس نے ایک دوسرے کی جگہ لینے والے شب و روز بنائے، اس شخص کے لیے جو نصیحت لینا اور شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔

62۔ زمین کی گردش کی موجودہ رفتار ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی جگہ ایک سو میل فی گھنٹہ ہوتی تو دن اور رات دس گنا لمبے ہو جاتے اور گرمیوں میں دن کو تمام نباتات جل جاتیں اور سردیوں میں رات کو جم جاتیں۔

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو کہتے ہیں: سلام۔

63۔ چال انسان کی شخصیت کی ترجمانی کرتی ہے۔ ایک مطمئن ضمیر کے مالک اور ایک فکری اعتدال رکھنے والے کی چال میں اور شخصیت میں خلا رکھنے والے کی چال میں فرق ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کی شخصیت میں خلا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جاہلوں کے ساتھ الجھتے ہیں۔ اگر کوئی بدتہذیبی کرتا ہے تو اللہ کی بندگی کرنے والا اپنی تہذیب کا مظاہرہ سلام کے ساتھ کر کے گزر جاتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا﴿۶۴﴾

۶۴۔اور جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔

64۔ رات نماز کے لیے مناسب وقت ہے۔ اس میں سکون و سکوت حاصل ہوتا ہے۔ عبادت گزار، نظروں سے پوشیدہ ریاکاری سے دور ہوتا ہے۔ جبکہ دن جہاد، تحصیل علم، حصول معاش جیسی عبادات کے لیے موزوں ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا﴿٭ۖ۶۵﴾

۶۵۔ اور جو یوں التجا کرتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں عذاب جہنم سے بچا، بے شک اس کا عذاب تو بڑی تباہی ہے۔

اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا﴿۶۶﴾

۶۶۔ بے شک جہنم تو بدترین ٹھکانا اور مقام ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔

67۔ نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں۔ اسراف طاقت کا ضیاع اور کنجوسی طاقت کا جمود ہے۔ اسلام فردی ملکیت کا قائل ہے، لیکن اس ملکیت میں نہ ضیاع کی اجازت دیتا ہے، نہ جمود کی، بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک اعتدال کی سفارش کرتا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں اس اعتدال کو دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی قرار دیا۔ چنانچہ روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمایا: یا بنی عَلَیْکَ بَالْحَسَنَۃِ بَیْنَ السَّیِّئَتَیْنِ ۔ (بحار الانوار 68: 216) بیٹا تم دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی اختیار کرو۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقہ سے اور زنا کا ارتکاب (بھی) نہیں کرتے اور جو ایسا کام کرے گا وہ اپنے گناہ میں مبتلا ہو گا۔

یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا﴿٭ۖ۶۹﴾

۶۹۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا ہو جائے گا اور اسے اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہو گا ۔

69۔ ممکن ہے مراد یہ ہو کہ جن لوگوں نے شرک کے ساتھ قتل بھی کیا ہو اور زنا بھی، وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ چونکہ زنا اور قتل اگر چہ گناہ کبیرہ ہے، لیکن ان کی وجہ سے جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔

اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۷۰﴾

۷۰۔ مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیا تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور رحیم ہے۔

70۔ توبہ کرنے سے نیکی کو فروغ ملتا ہے۔ توبہ کرنے سے انسان کے اندر کا محرک بدل جاتا ہے۔ توبہ سے پہلے گناہ کا محرک فعال ہوتا ہے اور توبہ کے بعد نیکی کا محرک فعال ہو جاتا ہے۔ توبہ اس کیمیکل تبدیلی کی طرح ہے جس میں ایک تعفن دار غلاظت میوہ شیریں میں بدل جاتی ہے۔