اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾

۹۱۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾

۹۲۔ اور رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔

91۔ 92 اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا تصور نہ صرف یہ کہ شان باری میں گستاخی ہے بلکہ تصور الوہیت کے سراسر منافی ہے کیونکہ کائنات میں موجود تمام چیزوں کا اللہ کے ساتھ عبد و معبود،مالک و مملوک اور خالق و مخلوق کا تعلق ہے تو ان مملوکوں میں سے کسی ایک کو اللہ کا ٹکڑا اور حصہ قرار دینا مقام معبود کے منافی اور گستاخی ہے اور اس قدر سنگین گستاخی ہے کہ کائنات کا ضمیر اسے برداشت نہیں کر سکتا۔

اِنۡ کُلُّ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحۡمٰنِ عَبۡدًا ﴿ؕ۹۳﴾

۹۳۔ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔

93۔ کائنات کی تمام موجودات بلا استثناء اللہ کی بندگی میں ہیں۔ موجودات میں کوئی ایسا وجود نہیں ہے جس کی اللہ کے ساتھ بندگی کے علاوہ کوئی نسبت ہو۔ رسول اللہ اور ولی اللہ کے لیے رسالت اور ولایت کی نسبت ہے، تو پہلے بندگی کی نسبت ہے۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُولُہٗ ۔

لَقَدۡ اَحۡصٰہُمۡ وَ عَدَّہُمۡ عَدًّا ﴿ؕ۹۴﴾

۹۴۔ بتحقیق اس نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں شمار کر رکھا ہے۔

94۔ اَحۡصٰہُمۡ یعنی کائنات کی تمام موجودات اللہ کی بندگی میں ہونے کے اعتبار سے اللہ کی مملوک اور مالک کے قبضے میں ہیں، جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور گھیرے اور احاطے میں رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کے گھیرے سے نہیں نکل سکتیں۔

وَ عَدَّہُمۡ اور یہ امکان بھی نہیں ہے کہ کوئی اللہ کی نظر سے اوجھل ہو جائے۔ ہر موجود اللہ کی کتاب تکوین میں شمار شدہ اور ثبت شدہ ہے۔

وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے سامنے تنہا حاضر ہونا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا﴿۹۶﴾

۹۶۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میں محبت پیدا کرے گا۔

96۔ کائنات میں کوئی فرد اللہ کی بندگی سے بالاتر نہیں، البتہ اس بندگی میں مراتب ضرور ہیں۔ جب بندہ ایمان و عمل صالح کے ایک خاص مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اللہ کے نزدیک قرب و منزلت کے علاوہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایک مقام پیدا فرما دیتا ہے۔

ابن مردویہ اور دیلمی نے حضرت براء سے اور طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی (الدر المنثور 4: 512)

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا﴿۹۷﴾

۹۷۔ (اے محمد) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑا لو قوم کی تنبیہ کریں۔

وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ؕ ہَلۡ تُحِسُّ مِنۡہُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَوۡ تَسۡمَعُ لَہُمۡ رِکۡزًا﴿٪۹۸﴾ ۞ؒ

۹۸۔ اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا ہے۔ کیا آج آپ کہیں بھی ان میں سے کسی ایک کا نشان پاتے ہیں یا ان کی کوئی آہٹ سنتے ہیں؟