آیات 94 - 95
 

لَقَدۡ اَحۡصٰہُمۡ وَ عَدَّہُمۡ عَدًّا ﴿ؕ۹۴﴾

۹۴۔ بتحقیق اس نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں شمار کر رکھا ہے۔

وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے سامنے تنہا حاضر ہونا ہے۔

تفسیر آیات

اَحۡصٰہُمۡ: کائنات کی تمام موجودات اللہ کی بندگی میں ہونے کے اعتبار سے اللہ کی مملوک ہیں اور مالک کے قبضہ میں ہیں جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ گھیرے اور احاطے میں رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کے گھیرے سے نکل نہیں سکتیں۔

وَ عَدَّہُمۡ: یہ امکان بھی نہیں ہے کہ کوئی اللہ کی نظر سے اوجھل ہو جائے۔ ہر موجود اللہ کی کتاب تکوین میں شمار شدہ اور ثبت شدہ ہے۔

وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ: قیامت کے دن جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہو گا تو اکیلا ہو گا۔ اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ہو گی چونکہ وہ کسی چیز کا مالک نہ تھا بلکہ وہ خود مملوک تھا۔ نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور آدمی ہو گا چونکہ اس کے رشتہ دار سب اس سے بھاگتے ہوں گے۔ نہ اس کے معبود ہوں گے چونکہ اس کے معبود بھی اس سے برائت چاہتے ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ مالک حقیقی اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی حقیقی مالک نہیں ہے بلکہ وہ خود مملوک ہے۔


آیات 94 - 95