آیات 88 - 92
 

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۸﴾

۸۸۔ اور وہ کہتے ہیں: رحمن نے کسی کو فرزند بنا لیا ہے۔

لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا ﴿ۙ۸۹﴾

۸۹۔ بتحقیق تم بہت سخت بیہودہ بات (زبان پر) لائے ہو۔

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾

۹۰۔ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔

اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾

۹۱۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾

۹۲۔ اور رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔

تشریح کلمات

اِدًّا:

( ا د د ) ادا کے معنی ہیں نہایت ناپسندیدہ بات، جس سے ہنگامہ برپا ہو جائے۔

یَتَفَطَّرۡنَ:

( ف ط ر ) الفطر پھاڑنے کے معنوں میں ہے۔ فطور خلل اور شگاف کے معنی میں ہے۔ فَطَرَ خَلَقَ پیدا کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے فطرت یعنی خلق مراد لیا جاتا ہے۔

تَخِرُّ:

( خ ر ر ) خر کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے معنوں میں ہے۔

ہَدًّا:

( ھ د د ) کے معنی کسی چیز کو زور دار آواز کے ساتھ گرا دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ کے لیے فرزند کا تصور شان الٰہی میں انتہائی گستاخی ہے اور اس قدر سنگین گستاخی ہے کہ کائنات کا ضمیر اسے برداشت نہیں کر سکتا اور کائنات اس نازیبا نسبت کو سن کر لرزہ براندام ہو جاتی ہے۔ یہ گستاخی نہ آسمانوں کے لیے قابل تحمل ہے، نہ زمین اس گستاخانہ نسبت کو سن سکتی ہے۔ نہ ہی پہاڑوں میں اس نسبت کو سننے کی تاب ہے لیکن نادان انسان اس قسم کی سنگین گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے چونکہ اس کا ضمیر مردہ اور وہ فطرت سے بہت دور نکل گیا ہے۔


آیات 88 - 92