آیات 102 - 103
 

قَالَ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَاۤ اَنۡزَلَ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ بَصَآئِرَ ۚ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰفِرۡعَوۡنُ مَثۡبُوۡرًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ موسیٰ نے کہا: (اے فرعون دل میں) تو یقینا جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے رب نے ہی بصیرت افروز بنا کر نازل کیا ہے اور اے فرعون! میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔

فَاَرَادَ اَنۡ یَّسۡتَفِزَّہُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ فَاَغۡرَقۡنٰہُ وَ مَنۡ مَّعَہٗ جَمِیۡعًا﴿۱۰۳﴾ۙ

۱۰۳۔ پس فرعون نے ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں زمین سے ہٹا دے مگر ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک ہی ساتھ غرق کر دیا۔

تشریح کلمات

یستفز:

( ف ز ز ) فزّ ہٹا دینا۔ تنگ کرنا۔ نکال دینا۔

تفسیر آیات

فرعون کا نہ ماننا اس لیے نہ تھا کہ معجزوں میں اتنی قوت نہ تھی کہ اسے قائل کر سکیں بلکہ فرعون کو علم اور یقین ہو گیا تھا کہ یہ معجزے صرف اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے ہو سکتے ہیں۔ اس علم و یقین کے باوجود فرعون نے نہ صرف معجزوں کو ماننے سے انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ختم کرنے کا ارادہ کر لیا تو اللہ نے خود اسے غرق کر دیا۔

اہم نکات

۱۔ معجزہ وہ ہوتا ہے جس سے مخالف کو یقین آئے۔

۲۔ یقینی معجزے کا منکر ہلاک ہو جاتا ہے۔


آیات 102 - 103