قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ کہدیجئے: اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔

110۔ مشرکین اللہ کے لفظ سے مانوس تھے، مگر رحمٰن کے لفظ سے مانوس نہ تھے۔ جب رسالتمآب یا اللہ یا رحمٰن کہتے تو مشرکین نے کہنا شروع کیا کہ یہ ہمیں توحید کی دعوت دیتا ہے خود دو خداؤں کو پکارتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ دونوں لفظوں کا مقصد و مراد ایک ہی ذات ہے۔ دوسرے جملے میں فرمایا: نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بہت پست آواز سے، بلکہ آواز میں اعتدال رکھو۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: اَلْجَھْرُ بِھَا رَفْعُ الصَّوْتِ وَ التَّخَافُتُ مَا لَمْ تُسْمِعْ نَفْسَکَ وَ اقْرَأ مَا بَیْنَ ذَلِکَ ۔ (وسائل الشیعۃ 6: 98) جۡہَرۡ بہت زیادہ بلند آواز کو کہتے ہیں اور اخفات یہ ہے کہ خود بھی نہ سن سکو۔ ان دونوں کے درمیان اعتدال سے پڑھو۔ یعنی جہری نمازوں کو زیادہ بلند آواز سے نہ پڑھو اور اخفاتی نمازوں کو اتنی پست آواز میں نہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو اور صرف لبوں کی جنبش رہ جائے۔