آیات 123 - 124
 

ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ (اے رسول) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔

اِنَّمَا جُعِلَ السَّبۡتُ عَلَی الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَیَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ سبت (کا احترام ) ان لوگوں پر لازم کیا گیا تھا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا اور آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

تفسیر آیات

یہاں ربط کلام اور نظم عبارت میں خاصی توجہ کی ضرورت ہے۔ سلسلہ کلام تشریع اور تقنین کے بارے میں ہے کہ امت مسلمہ پر چند چیزیں حرام کر دی گئیں مثلاً مردار، خون، سور کا گوشت وغیرہ اور یہ کہ تقنین، اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی اور مداخلت نہیں کر سکتا۔ قانون ہمیشہ اللہ ہی بناتا ہے۔ اس کے وضع کردہ قانون میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جیسا کہ یہودی قانون اور شریعت محمدی میں بظاہر نظر آتا ہے کیونکہ بعض قوانین یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے مکافات کے طور پر نافذ کر دے گئے تھے۔ یہ معروضی قوانین تھے، ان کا ملت ابراہیمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۔ ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ: ملت ابراہیمی کے ساتھ اے رسولؐ آپ کا تعلق ہے اور آپؐ کو ملت ابراہیمی پر چلنے کا ہم نے حکم دیا ہے۔

۲۔ اِنَّمَا جُعِلَ السَّبۡتُ: یہاں ایک مرتبہ پھر ایک ایسے قانون کی طرف اشارہ فرمایا جو یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے نافذ رہا ہے۔ وہ یوم سبت (ہفتہ) کا قانون ہے۔ یوم سبت کا تعلق صرف یہودیوں کی نافرمانی کی پاداش سے ہے۔ اس کا ملت ابراہیمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یوم سبت کی تفصیل سورۃ البقرۃ آیت۶۵ میں ملاحظہ فرمائیں۔

اہم نکات

۱۔ شریعت محمدی، ملت ابراہیمی کا تسلسل ہے۔

۲۔ بعض قانون یہودیوں کے ساتھ مخصوص تھے۔


آیات 123 - 124