آیت 125
 

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ: دعوت الی الحق تین بنیادوں پر استور ہے: ایک حکمت، دوسری موعظہ حسنہ اور تیسری مناظرہ۔ حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ لہٰذا واقع بینی کی دعوت دینا حکیمانہ دعوت ہو گی۔

دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور اس کے ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ موقع اور محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائے کہ مخاطب کو کون سی دلیل متاثر کر سکتی ہے۔ اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہر بات، ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہر حق کی بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی۔ جیسا کہ ہر دوائی سے ہر مریض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کے لیے مناسب نہیں ہوتا، اگر مریض کا معدہ اس دوائی کو ہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیسا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کا منافی تھا کہ شریعت کے تمام احکام بیک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جائیں۔

۲۔ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ: موعظہ حسنہ۔ موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔ مثلاً وہ موعظہ جس میں واعظ اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے اور مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یا صرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔

موعظہ حسنہ کے لیے سب سے پہلے خود واعظ کے لیے اس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا موعظہ حسنہ اور مؤثر نہ ہو گا بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿﴾ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿﴾ (۶۱ صف: ۲۔۳)

اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔

موعظہ حسنہ ہونے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ یہ موعظہ دل سوزی، خیر خواہی کے ساتھ ہو اور مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ ناصح کے دل میں اس کے لیے ہمدردی ہے۔ وہ اس کی خالصانہ اصلاح چاہتا ہے۔

۳۔ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ: بہتر انداز میں مباحثہ و مناظرہ یہ ہے کہ اس بحث و مناظرے کا مقصد کج بحثی، حریف مقابل پر بالا دستی اور غلبہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس مناظرے کا مقصد حریف مقابل کو راہ راست پر لانا ہو۔ مناظرے میں غالباً الزام تراشیاں ہوتی ہیں۔ حریف مقابل اور اس کے مقدسات کی توہین ہوا کرتی ہے۔ نازیبا کلمات استعمال کرنے، بہتان تراشی اور کذب و افترا کی نوبت آتی ہے۔ اس لیے مناظرے کے لیے اَحۡسَنُ کی شرط لگائی جب موعظہ کے لیے حسنۃ ہونا کافی ہے۔

ہر انسان انانیت کا شکار رہتا ہے اور اپنی انانیت پر آنے والی ہر آنچ کا پوری قوت سے مقابلہ کرتا ہے۔ مناظرے میں اگر حریف مقابل شکست کا احساس کرے اور اپنی انا متاثر ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس پر کوئی دلیل اثر نہیں کر سکتی لیکن اگر مناظرہ احسن طریقے پر ہو تو حریف مقابل کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو گا اور دلیل اس پر اثر کرے گی۔

اہم نکات

۱۔ تبلیغ و دعوت میں شائستگی کا بڑا دخل ہے۔

۲۔ مناظرے میں حریف مقابل کی عزت نفس مجروح نہیں کرنی چاہیے۔


آیت 125