اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

125۔ دعوت الی الحق دو بنیادوں پر استوار ہے: ایک حکمت اور دوسری موعظہ حسنہ۔ حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ موقع و محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائے کہ مخاطب کو کون سی دلیل متاثر کر سکتی ہے اور اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہر بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہر حق بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی۔ جیسا کہ ہر دوائی سے ہر مرض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کے لیے مناسب نہیں۔ اگر مریض کا معدہ اس دوائی کو ہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔ جیسا کہ رسول اسلام ﷺ نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لاَ اِلہ اِلا اللہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا۔ چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کے منافی تھا کہ نظام شریعت کے تمام احکام بہ یک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جاتے۔

الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ : موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔ مثلاً وہ موعظہ جس میں واعظ اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے، مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یا صرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔ موعظہ حسنہ کے لیے سب سے پہلے خود واعظ کا اس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے، ورنہ اس کا موعظہ موثر نہ ہو گا، بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔