یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ اَمَّاۤ اَحَدُ کُمَا فَیَسۡقِیۡ رَبَّہٗ خَمۡرًا ۚ وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصۡلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمۡرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسۡتَفۡتِیٰنِ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ اے میرے زندان کے ساتھیو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے رب کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی چڑھایا جائے گا پھر پرندے اس کا سر نوچ کھائیں گے، جو بات تم دونوں مجھ سے دریافت کر رہے تھے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔

41۔ توحید کا درس سنانے کے بعد اب خواب کی تعبیر بیان فرماتے ہیں اور جس وثوق و یقین کے ساتھ آپ علیہ السلام نے اس تعبیر کو بیان فرمایا اور اپنی تعبیر کو فیصلہ کن قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تعبیر کا مآخذ یقینی بنیادوں پر تھا اور وہ مآخذ وحی ہی ہو سکتی ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا، روایات کے مطابق وہ پہلے بھی اس منصب پر فائز تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا کہ وہ مصلوب ہو گا روایات کے مطابق یہ شخص بادشاہ کا نان بائی تھا۔

وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۴۲﴾

۴۲۔اور ان دونوں میں سے جس کی رہائی کا خیال کیا تھا (یوسف نے) اس سے کہا: اپنے مالک (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا مگر شیطان نے اسے بھلا دیا کہ وہ اپنے مالک سے یوسف کا ذکر کرے، یوں یوسف کئی سال زندان میں پڑے رہے۔

42۔اس آیت میں ظَنَّ کا استعمال بہ معنی یقین ہے، جیسا کہ دیگر بعض آیات میں بھی یہ لفظ یقین کے معنی میں آیا ہے۔ رَب کے معانی میں سے ایک معنی مالک ہے۔ چنانچہ جوہری نے الصحاح میں کہا ہے رب کل شیء مالکہ ۔ ہر شئی کا رب وہی ہے جو اس کا مالک ہے۔ لہٰذا یہ لفظ جہاں حقیقی مالک اللّٰہ کے لیے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے دیگر معنوں میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ لفظ اولیاء طاغوت کے لیے استعمال ہوا ہے: وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ اور اللہ کے لیے بھی اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔(بقرۃ :257) لہٰذا یہ اعتراض درست نہیں کہ ایک پیغمبر نے بادشاہ کو رَب کیسے کہ دیا۔

علل و اسباب کے ساتھ متوسل ہونا اخلاص و توکل کے منافی نہیں۔ لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام کا قید سے رہائی کے لیے وسائل و ذرائع تلاش کرنا اخلاص و توکل کے منافی نہیں ہے۔

وَ قَالَ الۡمَلِکُ اِنِّیۡۤ اَرٰی سَبۡعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ؕ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡ رُءۡیَایَ اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلرُّءۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک (خوشے)، اے دربار والو! اگر تم خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو تو میرے اس خواب کی تعبیر سے مجھے آگاہ کرو۔

43۔ قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر مصری بادشاہ کو الۡمَلِکُ کہتا ہے اور بائبل اسے فرعون کہتی ہے جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر بادشاہ عربی النسل تھے اور لفظ فرعون مصریوں کی مذہبی اصطلاح ہے۔ لہٰذا عربی النسل بادشاہان کو فرعون کہنا سراسر حقیقت کے خلاف ہے۔ اس سے قرآن کی حقانیت اور بائبل کے مؤلفین کی جہالت اور ان کی طرف سے تحریف ثابت ہو جاتی ہے۔

چنانچہ توریت میں آیا ہے: اور فرعون جاگا اور دیکھا کہ وہ خواب تھا اور یوں ہوا کہ صبح اس کا جی گھبرایا۔ تب اس نے مصر کے سارے جادوگروں اور اس کے سب دانشمندوں کو بلا بھیجا اور فرعون نے اپنا خواب ان سے کہا، پر ان میں کوئی فرعون کے خواب کی تعبیر نہ کر سکا۔ (پیدائش 41: 8)

قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ ۚ وَ مَا نَحۡنُ بِتَاۡوِیۡلِ الۡاَحۡلَامِ بِعٰلِمِیۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ انہوں نے کہا: یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم اس قسم کے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔

44۔ حضرت یوسف علیہ السلام صرف تعبیر پر اکتفا نہیں فرماتے، بلکہ ساتھ آنے والے حالات کے لیے منصوبہ بندی بھی فرماتے ہیں۔ ورنہ خواب کی تعبیر تو یہ بنتی ہے کہ موٹی گائیں نعمت کی فراوانی اور سبز خوشے اچھی کھیتی باڑی کی علامت ہیں۔ دبلی گائیں اور خشک خوشے قحط کی علامت ہیں۔ سات موٹی گائیوں کا سات دبلی گائیوں کو کھانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قحط کے سات سالوں میں وہی غلہ کھانا ہے جو گزشتہ سات سالوں میں جمع کر رکھا ہو اور خشک خوشے اس بات کی بھی علامت ہیں کہ فصلوں کو خوشوں کے اندر محفوظ رکھا جائے تاکہ اتنی لمبی مدت میں خراب نہ ہوں۔ ان باتوں کے علاوہ دو دیگر باتوں کا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی فراست یا وحی کے ذریعے ذکر فرمایا: ایک یہ کہ قحط کے سالوں میں کچھ دانے بیج کے لیے محفوظ رکھنا ہوں گے ورنہ خشک سالی ختم ہونے پر بھی زراعت نہ ہو سکے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سات سالوں کے بعد شادابی شروع ہو گی۔

داستان یوسف میں تین خواب قابل توجہ ہیں :I یوسف کا خواب II۔ قیدی کا خواب III۔ بادشاہ کا خواب اور تین کرتے قابل توجہ ہیں :I خون آلود کرتہ II۔ وہ کرتا جس کا دامن چاک تھا۔ III۔ وہ کرتا جس سے یعقوب علیہ السلام کو بینائی ملی۔

وَ قَالَ الَّذِیۡ نَجَا مِنۡہُمَا وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمۡ بِتَاۡوِیۡلِہٖ فَاَرۡسِلُوۡنِ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ان دو قیدیوں میں سے جس نے رہائی پائی تھی اور اسے وہ بات بڑی مدت بعد یاد آ گئی ، اس نے کہا: میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں مجھے (یوسف کے پاس زندان) بھیج دیجئے۔

یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ اَفۡتِنَا فِیۡ سَبۡعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعِ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۙ لَّعَلِّیۡۤ اَرۡجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اے یوسف! اے بڑے راستگو! سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز اور سات خوشے خشک ہیں، ہمیں (اس کی تعبیر) بتائیں تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (آپ کی سچی تعبیر سن کر) شاید وہ جان لیں۔

قَالَ تَزۡرَعُوۡنَ سَبۡعَ سِنِیۡنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدۡتُّمۡ فَذَرُوۡہُ فِیۡ سُنۡۢبُلِہٖۤ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تَاۡکُلُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ یوسف نے کہا: تم سات برس تک متواتر کھیتی باڑی کرتے رہو گے ان سالوں میں جو فصل تم کاٹو ان میں سے قلیل حصہ تم کھاؤ باقی اس کے خوشوں ہی میں رہنے دو۔

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ سَبۡعٌ شِدَادٌ یَّاۡکُلۡنَ مَا قَدَّمۡتُمۡ لَہُنَّ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تُحۡصِنُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر اس کے بعد سات برس ایسے سخت آئیں گے جن میں وہ غلہ کھا لیا جائے گا جو تم نے ان سالوں کے لیے جمع کر رکھا ہو گا سوائے اس تھوڑے حصے کے جو تم بچا کر رکھو گے۔

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیۡہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیۡہِ یَعۡصِرُوۡنَ﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو خوب بارش ملے گی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے۔

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور بادشاہ نے کہا : یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا :اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ دیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاریوں سے یقینا خوب باخبر ہے۔

50۔ تعبیر خواب سن کر بادشاہ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ یوسف علیہ السلام ایک غیر معمولی شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف خوابوں کی تعبیر جانتے ہیں بلکہ اپنی جوانی زندان میں گزارنے اور جوان و ناتجربہ کار ہونے کے باوجود تدبیر مملکت کی خاصی مہارت رکھتے ہیں

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کسی پر الزام دھرنے کی بجائے حقیقت امر میں تحقیق کی خواہش کی اور عزیز مصر کی بیوی کا ذکر نہیں کیا، بلکہ واقعہ کے گواہوں کا ذکر کیا اور حضرت یوسف یہ نہیں چاہتے تھے کہ الزام کا داغ لے کر بادشاہ کی معافی کے ذریعے زندان سے آزاد ہو جائیں۔