زندان سے رہائی کے لیے یوسف ؑ کی شرائط


وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور بادشاہ نے کہا : یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا :اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ دیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاریوں سے یقینا خوب باخبر ہے۔

50۔ تعبیر خواب سن کر بادشاہ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ یوسف علیہ السلام ایک غیر معمولی شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف خوابوں کی تعبیر جانتے ہیں بلکہ اپنی جوانی زندان میں گزارنے اور جوان و ناتجربہ کار ہونے کے باوجود تدبیر مملکت کی خاصی مہارت رکھتے ہیں

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کسی پر الزام دھرنے کی بجائے حقیقت امر میں تحقیق کی خواہش کی اور عزیز مصر کی بیوی کا ذکر نہیں کیا، بلکہ واقعہ کے گواہوں کا ذکر کیا اور حضرت یوسف یہ نہیں چاہتے تھے کہ الزام کا داغ لے کر بادشاہ کی معافی کے ذریعے زندان سے آزاد ہو جائیں۔