آیات 44 - 49
 

قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ ۚ وَ مَا نَحۡنُ بِتَاۡوِیۡلِ الۡاَحۡلَامِ بِعٰلِمِیۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ انہوں نے کہا: یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم اس قسم کے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡ نَجَا مِنۡہُمَا وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُکُمۡ بِتَاۡوِیۡلِہٖ فَاَرۡسِلُوۡنِ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ان دو قیدیوں میں سے جس نے رہائی پائی تھی اور اسے وہ بات بڑی مدت بعد یاد آ گئی ، اس نے کہا: میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں مجھے (یوسف کے پاس زندان) بھیج دیجئے۔

یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ اَفۡتِنَا فِیۡ سَبۡعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعِ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ۙ لَّعَلِّیۡۤ اَرۡجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اے یوسف! اے بڑے راستگو! سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز اور سات خوشے خشک ہیں، ہمیں (اس کی تعبیر) بتائیں تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (آپ کی سچی تعبیر سن کر) شاید وہ جان لیں۔

قَالَ تَزۡرَعُوۡنَ سَبۡعَ سِنِیۡنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدۡتُّمۡ فَذَرُوۡہُ فِیۡ سُنۡۢبُلِہٖۤ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تَاۡکُلُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ یوسف نے کہا: تم سات برس تک متواتر کھیتی باڑی کرتے رہو گے ان سالوں میں جو فصل تم کاٹو ان میں سے قلیل حصہ تم کھاؤ باقی اس کے خوشوں ہی میں رہنے دو۔

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ سَبۡعٌ شِدَادٌ یَّاۡکُلۡنَ مَا قَدَّمۡتُمۡ لَہُنَّ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تُحۡصِنُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر اس کے بعد سات برس ایسے سخت آئیں گے جن میں وہ غلہ کھا لیا جائے گا جو تم نے ان سالوں کے لیے جمع کر رکھا ہو گا سوائے اس تھوڑے حصے کے جو تم بچا کر رکھو گے۔

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیۡہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیۡہِ یَعۡصِرُوۡنَ﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو خوب بارش ملے گی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے۔

تشریح کلمات

اُمَّۃٍ:

( ا م م ) کے معنی عرصہ دراز کے ہیں۔

دَاَبًا:

( د ء ب ) مسلسل چلنے، مستمر عادت کے معنوں میں ہے۔ اس میں تسلسل اور استمرار کے معنی پائے جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍ: ان لوگوں نے بادشاہ سے کہا: یہ انسان کی ذہنی کیفیت پر مشتمل پریشان خواب ہے۔ اس کی تعبیر ہم نہیں جانتے۔ البتہ یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ ان لوگوں نے کہا: ہم پریشان خواب کی تعبیر نہیں جانتے۔ یہ نہیں کہا پریشان خواب کی کوئی تعبیر ہوتی نہیں ہے۔ جب کہ حق کلام یہ تھا کہ پریشان خواب کی تعبیر ہم کیا جانیں ، اس کی تعبیر ہوتی نہیں ہے۔

۲۔ یُوۡسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیۡقُ: حضرت یوسف علیہ السلام تعبیر پر اکتفا نہیں فرماتے بلکہ ساتھ آنے والے حالات کے لیے منصوبہ بھی بیان فرماتے ہیں۔ ورنہ خواب کی تعبیر تو یہ بنتی ہے کہ موٹی گائیں اور سبز بالیاں نعمت کی فروانی اور کھیتی باڑی کی علامت ہیں۔

دبلی گائیں اور خشک بالیاں قحط کی علامت ہیں۔ سات موٹی گایوں کا سات دبلی گایوں کا کھانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قحط کے سات سالوں میں وہی غلہ کھانا ہو گا جو گزشتہ سالوں میں جمع کر رکھا ہے اور خشک اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فصلوں کو خوشوں کے اندر ہی محفوظ رکھا جائے تاکہ اتنی لمبی مدت میں خراب نہ ہوں۔

سات سال کے بعد خشک سالی اور قحط ختم ہونا ہے۔ اس سے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی فراست یا وحی کے ذریعے دو باتوں کا مزید ذکر فرمایا:

i۔ قحط کے سالوں میں کچھ دانے بیج کے لیے محفوظ رکھنا ہوں گے ورنہ خشک سالی ختم ہونے پر بھی زراعت نہ ہو سکے گی: اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ ۔

ii۔ خشک سالی کے بعد شادابی کا دور شروع ہو گا کیونکہ خشک سالی ختم ہونے کا مطلب شادابی ہے۔

وَ فِیۡہِ یَعۡصِرُوۡنَ: باران رحمت سے جب زمین شاداب ہو جاتی ہے تو رس دینے والے پھل اور میوے پیدا ہوتے ہیں اور مویشی بھی وافر مقدار میں دودھ دینا شروع کرتے ہیں۔ ان دو باتیں کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا۔

اہم نکات

۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے زندان سے مملکت مصر کے لیے پندرہ سالوں کے لیے ایک جامع اقتصادی منصوبہ بندی وضع فرمائی۔

۲۔ اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے زمانے کا علم تعبیر خواب عنایت فرمایا۔

۳ داستان یوسف علیہ السلام تین خوابوں پر مشتمل ہے: i۔ خواب یوسف علیہ السلام ii۔ خواب زندانی iii۔ خواب بادشاہ۔


آیات 44 - 49