وَ قَالَ الۡمَلِکُ اِنِّیۡۤ اَرٰی سَبۡعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ؕ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡ رُءۡیَایَ اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلرُّءۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک (خوشے)، اے دربار والو! اگر تم خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو تو میرے اس خواب کی تعبیر سے مجھے آگاہ کرو۔

43۔ قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر مصری بادشاہ کو الۡمَلِکُ کہتا ہے اور بائبل اسے فرعون کہتی ہے جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر بادشاہ عربی النسل تھے اور لفظ فرعون مصریوں کی مذہبی اصطلاح ہے۔ لہٰذا عربی النسل بادشاہان کو فرعون کہنا سراسر حقیقت کے خلاف ہے۔ اس سے قرآن کی حقانیت اور بائبل کے مؤلفین کی جہالت اور ان کی طرف سے تحریف ثابت ہو جاتی ہے۔

چنانچہ توریت میں آیا ہے: اور فرعون جاگا اور دیکھا کہ وہ خواب تھا اور یوں ہوا کہ صبح اس کا جی گھبرایا۔ تب اس نے مصر کے سارے جادوگروں اور اس کے سب دانشمندوں کو بلا بھیجا اور فرعون نے اپنا خواب ان سے کہا، پر ان میں کوئی فرعون کے خواب کی تعبیر نہ کر سکا۔ (پیدائش 41: 8)