آیت 157
 

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۵۷﴾٪

۱۵۷۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

تشریح کلمات

اِصۡرَ:

( ا ص ر ) بوجھ کے معنوں میں ہے اور عہد مؤکد کو بھی کہتے ہیں۔ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ : ۲۸۶)

الۡاَغۡلٰلَ:

( غ ل ل ) غلٌ کی جمع ہے۔ اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی کے اعضاء کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔

عَزَّرُوۡہُ:

( ع ز ر ) عزّر ۔ التعزیر ۔ اس مدد کوکہتے ہیں جو جذبہ تعظیم کے ساتھ ہو۔ اسی سے تادیبی سزا کو تعزیر کہتے ہیں کیونکہ اس شخص کی اصلاح کے لیے ایک قسم کی مدد ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ رسول، نبی اور امّی ان تینوں اوصاف میں سے لفظ رسول موصوف اور نبی امّی صفت کے عنوان سے مذکور ہے۔ اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امّی کے نام سے معروف ہیں۔

اہل کتاب عربوں کو امّی کہتے تھے اور اہل حجاز کا تو یہ لفظ لقب بن گیا تھا ۔ وہ ان کو امّی کہ کر اپنے برابر انسانی حقوق تسلیم کرنے کے لیے بھی آمادہ نہ تھے۔ وہ ان کے اموال کی جبراً غارت گری کرتے تھے اور کہتے تھے:

لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۔۔۔۔ ( آل عمران: ۷۵)

ناخواندہ (غیر یہودی) لوگوں کے بارے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اس لفظ امّی کو جہاں اہل کتاب خاص کر یہودی تحقیر کے طور پر استعمال کرتے تھے، وہاں قرآن نے اس لفظ کو رسول کریمؐ کی شناخت کے طو رپر بیان فرمایا۔ اس میں عظیم نکتہ یہ ہے کہ وہ رسول جن کے بارے میں تم خود تسلیم کرتے ہو کہ وہ امّی ہیں، ایک جامع نظام حیات پیش کرتے ہیں، جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے دانشور قاصر ہیں۔ یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جس نظام حیات نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا ہے، اس کا پیش کرنے والا اللہ کی طرف سے پڑھا ہوا ہے۔ وہ ان سب پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ البتہ بشری درسگاہوں میں نہیں بلکہ ملکوتی درسگاہوں کا پڑھا لکھا ہے۔ اس نے ان سیاہ لکیروں والی تحریر کو نہیں پڑھا، وہ لوح کائنات پر قلم قدرت سے لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ کر آیا ہے:

بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ (۸۵ بروج:۲۱ ۔ ۲۲)

بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ لوح محفوظ میں (ثبت) ہے۔

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی (۸۷ اعلی: ۶)

(عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لکیروں کو پڑھ نہیں سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ ان لکیروں کو پڑھتے نہیں ہیں۔ وہ انسانیت کو تعلیم دینے آئے ہیں، انسانوں سے تعلیم لینے نہیں آئے کہ ان کی تحریروں کو پڑھنے کی ضرورت پیش آئے۔

۲۔ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ: جس کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ یہاں نہایت سنجیدہ اور فیصلہ کن لہجے میں یہ اعلان ہے کہ اگر یہ اعلان مبنی برحق نہ ہوتا تو اس طرح کا دعویٰ کرنے کا نتیجہ اس کے حق میں نہ ہوتا بلکہ لوگ اور زیادہ متنفر ہو جاتے کہ یہ شخص غیر ذمہ دار ہے۔

اس قدر تحریف و تغیر کے باوجود موجودہ توریت و انجیل میں رسول کریمؐ کی آمد کے سلسلے میں تصریحات موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:

الف : توریت استثناء ۱۸ : ۱۵ میں آیا ہے :

خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو۔

ب: توریت استثناء ۱۸: ۱۸ میں آیا ہے :

اور خدا نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کیا سو اچھا کیا۔ میں ان کے لیے ان بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔

بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد اولاد اسماعیل ہی ہو سکتی ہے۔

ج۔ توریت استثناء ۳۳: ۲ میں آیا ہے:

خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔

فاران مکہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ دس ہزار افراد کے ساتھ حضور (ص) مکہ میں داخل ہوئے تھے۔

د: توریت پیدائش ۱۷ : ۲۱ میں آیا ہے:

اور اسماعیل کے حق میں، میں نے تیری سنی، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے آبرومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا ۔ اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے۔ میں اسے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔

اولاد اسماعیل کے لیے یہ سب وعدے محمد و آل محمد (ع) کی بارہ ذوات مقدسہ میں پورے ہوئے۔ اس آیت میں جہاں اہل کتاب کے لیے لمحہ فکریہ ہے، وہاں اہل اسلام کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

ھ: انجیل یوحنا ۱۴: ۱ میں آیا ہے:

اور میں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسرا مددگار فارقلیط بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ۔

جب وہ مددگار فارقلیط آئے گا، جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کی روح جو باپ کی طرف سے نکلتی ہے تو وہ میری گواہی دے گی۔

و: انجیل یوحنا ۱۶ :۱۳ میں آیا ہے :

جب سچائی کی روح آئے گی تم کو حق کی تمام باتیں سکھائے گی کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بولتی۔

فارسی ترجمہ مطبوعہ لندن ۱۸۷۸ء میں فارقلیط کا ترجمہ ’تسلی دہندہ‘ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو :

چون آن تسلی دھندہ بیاید کہ من از جانب پدر بہ شما خواہم فرستاد یعنی روح راستی کہ از طرف پدر می آید او دربارۂ من شہادت خواھد داد۔

فارقلیط یا فیرقلیط کون ہے؟: فارقلیط یونانی لفظ ہے۔ اس کا انگلش تلفظ Paraclete ہے۔ اس کے معنی عزت یا مدد دینے والا۔ اس کا دوسرا لفظ فیرقلیط Periclite ہے جس کے معنی ہیں جلیل الشان، بلند مرتبہ، بزرگوار، جو محمد، احمد اور محمود کے قریب المعنی ہیں۔

فارقلیط کا تلفظ: حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) پر انجیل عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی، جس کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا ۔ اس لفظ کا یونانی تلفظ پاراکلیٹوس ہے جس کے معنی عزت دہندہ کے بنتے ہیں اوراس کا عربی تلفظ فارقلیط بنا دیا اور اگر یونانی تلفظ پیرکلوٹوس ہے تو ا س کے معنی محمد، احمد اور محمود کے قریب ہیں۔

واضح رہے یہ لوگ توریت و انجیل کا جب کسی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو ان کی یہ عام عادت ہے کہ اصل نام کی جگہ اس کا ترجمہ کردیتے ہیں۔ مؤلف اظہار الحق نے اس کی بہت سے مثالیں پیش کی ہیں۔

انجیل متی باب ۱۱ ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۱۱ء اور ۱۸۴۴ء میں فان اردتم ان تقبلوہ فھو ایلیا المزمع ان یاتی اور ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۱۶ ء میں ایلیا کی جگہ فھذا ھوا رکھ دیا ہے۔

انجیل یوحنا باب ۴ ترجمہ عربی ۱۸۱۱ء، ۱۸۳۱ء اور ۱۸۴۴ء میں آیا ہے: لما علم یسوع جب کہ ترجمہ عربی مطبوعہ۱۸۱۶ء اور ۱۸۶۰ء میں یسوع کی جگہ رب رکھا ہے۔ لما علم الرب ۔

انجیل یوحنا باب اول آیت ۴۱ میں ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۱۱ء اور ۱۸۴۴ء میں آیا ہے :

قد وجدنا مسیا الذی تاویلہ المسیح یعنی ہم نے مسیا کو پایا، جس کی تاویل مسیح ہے۔

فارسی ترجمہ مطبوعہ ۱۸۱۶ء میں آیا ہے:

ما مسیح را کہ ترجمۂ آن ’’کرسطوس‘‘ میباشد یافتیم۔

پتہ نہیں چلتا کہ اصل لفظ مسیا ہے، مسیح اس کا ترجمہ ہے یا بقول ترجمۂ فارسی اصل مسیح ہے، اس کا ترجمہ کرسطوس ہے اور بقول ترجمہ اردو مطبوعہ ۱۸۳۹ء اصل لفظ خرستہ ہے۔

انجیل یوحنا باب اول آیت ۴۲ میں حضرت عیسیٰ (ع) نے اپنے حواری بطرس سے کہا (ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۱۱ء ) :

انت تدعی ببطرس الذی تاویلہ الصخرۃ

تجھے پطرس پکارا جائے جس کے معنی پتھر ہیں۔

جب کہ ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۱۶ء میں اس کے برعکس آیا ہے:

ستسمی انت بالصفا المفسر ببطرس ۔

تجھے پتھر پکارا جائے جس کے معنی پطرس ہیں۔

ترجمہ فارسی میں آیا ہے :

ترا بکیفاس کہ ترجمۂ آن سنگ است ندا خواہند کرد۔

ان شخصیتوں کے اصلی ناموں میں تبدیلی و تحریف میں ان کا خاص مفاد وابستہ نہیں ہے تو اسم محمد میں تبدیلی لانے میں نہ تو کوئی تأمل ہو سکتا ہے، نہ کسی کو تعجب ہونا چاہیے۔

۳۔ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ: اچھی اور نیک باتوں کی دعوت دینا اور بری باتوں سے روکنا، اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ زندہ اور فعال رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ساتھ امت اسلامیہ کی تربیت اور اخلاقی و اجتماعی قدروں کا شعور بیدار کرنے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نظام ایک انسان ساز نظام ہے۔ یہ نظام اسلامی تعلیمات کا ایک خاصہ ہے۔ اگرچہ دیگر ادیان میں بھی اس دستور کا ذکر ہے لیکن اسلامی نظام میں اس کا جو مقام اور اہمیت ہے وہ کسی اور دین و مذہب میں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مطابق اس عمل کے سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اگر کوئی قوم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل ترک کر دے اور نتیجتاً برے حکمران اس پر مسلط ہو جائیں اور وہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعا کرے تو اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرے گا۔

۴۔ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ: وہ چیزیں جو انسانی نفس و روح اور جسم کے لیے مناسب اور مفید ہیں، ان کو حلال قرار دیا ہے اور وہ چیزیں جن سے انسانی نفسیات و صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان کو حرام قرار دیا ہے۔ ملت اسلامیہ کا ایک امتیازی نشان یہ ہے کہ اس کی شریعت پر عمل پیرا شخص ہر قسم کی گندگی اور پلیدی سے دور رہتا ہے۔

۵۔ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ: اس رسول کریمؐ کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ناروا قید و بند سے آزادی دلاتے ہیں۔ ہرقسم کی غلامی سے آزاد کر دیتے ہیں۔ مذہبی مفاد پرستوں سیاسی آقاؤں کی طرف سے جن بوجھوں تلے یہ لوگ دبے اور جن خود ساختہ جکڑ بندیوں میں پھنسے ہوئے تھے، ان سب سے آزاد کر کے ایک مستقل قوم کی حیثیت دیتے ہیں۔

نیز سابقہ شریعتوں کے بر خلاف شریعت محمدی ایک سہل اور آسان شریعت ہے۔ چنانچہ کوئی حکم اگر معمول سے زیادہ ناقابل تحمل مشقت کا باعث ہو تو وہ حکم اٹھ جاتا ہے۔ اسے فقہی اصطلاح میں قاعدۃ نفی الحرج کہتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۔ (۲ بقرۃ: ۱۸۵)

اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔

۶۔ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ: آیت کے شروع میں رسول کریم کی تین ذمہ داریوں: i۔ امر بمعروف نہی از منکر۔ii۔ پاکیزہ چیزوں کو حلال اورiii۔ ناپاک چیزوں کو حرام اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور طوق اتارنا، کے ذکر کے بعد امت کے لیے تین ذمہ داریوں کا ذکر ہے۔ اول ان پر ایمان لانا۔ دوم ان کی تعظیم کے ساتھ ان کی کمک کرنا، ان کا دست و بازو بنتا۔ سوم اس نور (قرآن) کی اتباع کرنا جو ان کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ ان شرائط سے گزرنے کے بعد فلاح و کامیابی کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ رحمت خاص صرف امت محمدیہ کے ساتھ مخصوص ہے: اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ ۔

۲۔ طیب طاہر چیزوں کو حلال اور ہر ناپاک اور گندگی سے اجتناب کرنا اس امت کا خاصہ ہے: وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ ۔۔۔۔

۳۔ رسول اسلام ہر قسم کے ناروا قید و بند اور جکڑ بندیوں سے آزادی دلانے کے لیے آئے ہیں:

وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔۔

۴۔ فلاح کے لیے ضروری ہے رسول پر ایمان ہو اور رسول کی نصرت کرے فرار نہ کرے۔ قرآن کی اتباع کرے اسے پس پشت نہ ڈالے۔


آیت 157