آیت 156
 

وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ۚ

۱۵۶۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی مقرر فرما ہم نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے،ارشاد فرمایا: عذاب تو جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اکۡتُبۡ لَنَا: دنیا میں نیکی مل جانے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ فطری تقاضوں پر قائم رہتا ہے، جس سے آخرت کی نیکیاں بھی وصول ہو جاتی ہیں ۔

۲۔ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ: ہم نے جب تیری طرف رجوع کیا ہے تو ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی بھلائی ہمارے شامل حال ہو جائے۔

۳۔ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ: قانون مجازات کے تحت اللہ کا عذاب تو صرف ان لوگوں پر ہے جن پر عذاب کرنا مشیت اور عدل الٰہی میں ضروری ہے۔

۴۔ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ: لیکن اللہ کی رحمت بلا امتیاز ہر چیز کو شامل ہے۔ نیک، مجرم، کافر، منکر حتیٰ سرکشوں کو بھی اللہ دنیامیں اپنی رحمت سے محروم نہیں فرماتا۔

۵۔ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ: اس رحمت کو لازم اور ضروری قرار دیتا ہوں اہل تقویٰ، اہل ایمان کے لیے جیسا کہ مجرموں کے لیے عذاب کو ضروری قرار دیتا ہوں۔

۶۔ یہاں دو رحمتوں کا ذکر ہے: ایک عام رحمت جو بلامعاوضہ ہر چیز کو ملتی ہے۔ یہ رحمت ہر چیز کے لیے، ان کے وجود کی ابتدا سے لے کر انتہا تک جاری رہتی ہے۔ دوسری خاص رحمت ہے۔ یہ صرف اہل تقویٰ و عمل اور اہل ایمان کے لیے ہے۔ جو ان کے اعمال حسنہ کے جزا و ثواب کے طور پر ہے۔ اس رحمت میں کافروں کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:

اس خاص رحمت کے مقابلے میں کافروں کے لیے عذاب ہے لیکن اس عام رحمت کے مقابلے میں کوئی عذاب نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ عذاب کا سبب مجرم کی طرف سے ہے، جب کہ رحمت اللہ کی طرف سے ہے۔ لہٰذا عذاب جرم کے ساتھ مقید ہے اور رحمت ہر چیز کے لیے عام ہے: عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔

۲۔ خاص رحمت کے لیے تقویٰ (عمل کی پاکیزگی) زکوٰۃ (مال کی پاکیزگی) اور ایمان (عقیدہ کی مضبوطی) شرط ہے۔


آیت 156