تخلیق اول، دلیل معاد


وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور اگر آپ کو تعجب ہوتا ہے تو ان (کفار) کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہو گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی جہنم والے ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

5۔ جو انسان ابتدا میں مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا کس قدر تعجب خیز ہے کہ اسے دوبارہ مٹی سے کیسے پیدا کیا جائے گا۔ گویا وہ یہ مانتے ہیں کہ پہلی بار انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے، لیکن یہ انسان مٹی ہو جاتا ہے تو دوبارہ مٹی سے انسان پیدا نہیں ہو سکتا۔ تعجب یہاں ہے کہ دوبارہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ خدائے عادل و حکیم کا انکار ہے کہ اگر معاد نہیں ہے تو اللہ نہ عادل رہتا ہے، نہ حکیم۔ یہ عقیدہ ایک قسم کی فکری بے مائیگی ہے، وہ مغلول الفکر اور اسیر تقلید ہیں۔ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔

وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور وہ کہتے ہیں: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟

49 تا51۔ مشرکین کہتے تھے: یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مر کر ہڈی اور خاک ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے؟ بوسیدہ ہڈی اور خاک، حیات سے بہت دور ہے۔ ان سے فرمایا: خاک کو تو حیات کے ساتھ ربط ہے۔ تم ایسی چیز فرض کرو جو تمہاری نظر میں حیات سے بہت دور ہے۔ مثلاً پتھر اور لوہا جن میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں ہے۔ اللہ ان کو بھی دوبارہ زندگی دے سکتا ہے۔ اس کا ایک عام فہم اور منطقی جواب یہ دیتا ہے کہ اس خاک کو دوبارہ زندگی وہی دے گا جس نے پہلی بار تم کو عدم سے وجود بخشا ہے۔ جو ایجاد پر قادر ہے، وہ اعادہ پر بھی قادر ہے۔

اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ کیا اس ذات کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ مرنے والوں کو زندہ کرے؟

40۔ جب ایک بوند سے انسان بنا سکتا ہے تو وہ بوسیدہ ہڈیوں سے کیوں نہیں بنا سکتا۔ جب کہ ہڈیوں اور اس مردہ انسان کی تمام خاصیتیں اس کے D.N.A میں ہوتی ہیں۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ مستقبل میں اعادﮤ حیات کا راز انسانوں پر منکشف ہو جائے گا۔