آیات 49 - 51
 

وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور وہ کہتے ہیں: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟

قُلۡ کُوۡنُوۡا حِجَارَۃً اَوۡ حَدِیۡدًا ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔ کہدیجئے: تم خواہ پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔

اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا یَکۡبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۚ فَسَیُنۡغِضُوۡنَ اِلَیۡکَ رُءُوۡسَہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہُوَ ؕ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں بڑی ہو ـ(پھر بھی تمہیں اٹھایا جائے گا) پس وہ پوچھیں گے: ہمیں دوبارہ کون واپس لائے گا؟ کہدیجئے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، پس وہ آپ کے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہو گا؟ کہدیجئے: ہو سکتا ہے وہ (وقت) قریب ہو۔ـ

تشریح کلمات

رُفَاتًاءَ:

( ر ف ت ) کسی چیز کے چور چور کر دینے کے ہیں اور جیسے بھوسہ وغیرہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔

ینغضون:

( ن غ ض ) الانغاض کے معنی دوسرے کے سامنے تعجب سے سر ہلانے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا: حیات بعد الموت ایک ایسا مسئلہ تھا جسے مشرکین بڑے شد و مد سے مسترد کرتے تھے۔ قرآن اس مسئلے کو سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ پیش کرتا اور مشرکین کے اعتراض کا جواب دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: کیسے ممکن ہے انسان ہڈی اور خاک ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے؟ بوسیدہ ہڈی اور خاک، حیات سے بہت دور ہے۔

۲۔ قُلۡ کُوۡنُوۡا حِجَارَۃً اَوۡ حَدِیۡدًا: ان سے فرمایا: حیات کا اگر خاک کے ساتھ ربط ہے تو تم ایسی چیز فرض کرو جو حیات سے تمہاری نظر میں بہت دور ہے۔ مثلاً پتھر اور لوہا جس میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں ہوتی، اللہ انہیں بھی دوبارہ زندگی دے سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تخلیقی سامان کُنۡ فَیَکُوۡنُ ہر جگہ ایک ہے۔

۳۔ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا: دوسری تخلیق ممکن ہونا دکھانے کے بعد ان مشرکین کا سوال ہے کہ اس خاک کو دوبارہ زندگی کون دے سکتا ہے؟

۴۔ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ: قرآن ایک سادہ عام فہم اور منطقی جواب دیتا ہے کہ اس خاک کو دوبارہ زندگی وہی دے گا جس نے پہلی بار تمہیں عدم سے ایجاد کیا ہے۔ وہی تمہارا خاک سے اعادہ کرے گا۔ جو ایجاد پر قادر ہے وہ اعادہ پر بہتر قادر ہے۔ یہ ایک اہم دلیل ہے۔ جو کام ایک بار کر کے دکھایا ہے اس کا دوبارہ کرنا یقینا ممکن ہے۔ اگر ممکن نہ ہوتا تو پہلے یہ کام نہ کر سکتا تھا۔

۵۔ فَسَیُنۡغِضُوۡنَ اِلَیۡکَ رُءُوۡسَہُمۡ: یہ ناقابل تردید جواب سن کر وہ تمسخر کے انداز میں اپنا سر ہلاتے تھے اور پھر بطور محال کہتے: مَتٰی ہُوَ یہ کب ہو گا؟ یہ نہ ہونے والی بات ہے۔ قُلۡ عَسٰۤی: کہہ دیجیے ہو سکتا ہے قریب ہو۔ جواب کا لہجہ بھی بتاتا ہے کہ قیامت کب ہو گی؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان پتھر یا لوہے میں بدل جائے تو بھی اسے زندہ کیا جائے گا۔

۲۔ جو ذات ایجاد پر قادر ہے وہ اعادہ پر بھی قادر ہے۔


آیات 49 - 51