سرگوشیاں اورسازشیں


اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا ۚ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۷﴾

۷۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کے بارے میں جانتا ہے، کبھی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے اور نہ پانچ آدمیوں کی مگر یہ کہ ان کا چھٹا اللہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ جہاں کہیں ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

7۔ منافقین مسلمانوں کے خلاف خفیہ منصوبے بناتے اور ان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے تھے۔ ان کی خفیہ سرگوشیوں کو اس آیت کے ذریعہ فاش کیا گیا۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۸﴾

۸۔ کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کیا گیا تھا؟ جس کام سے انہیں منع کیا گیا تھا وہ پھر اس کا اعادہ کر رہے ہیں اور آپس میں گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو وہ آپ کو اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طریقے سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے آپ سے کہتے ہیں: اللہ ہماری باتوں پر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟ ان کے لیے جہنم کافی ہے جس میں وہ جھلسائے جائیں گے، جو بدترین انجام ہے۔

8۔ یہود اور منافقین آپس میں سرگوشی کرتے تھے اور مومنین کو دیکھ کر آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے۔ مومنین اس خیال سے فکر مند ہوتے تھے کہ جو لوگ کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے ہیں، شاید ان کو کسی جانی نقصان یا شکست وغیرہ سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ اس بات کی رسول اللہ ﷺ سے شکایت ہوئی، رسول اللہ ﷺ، کی طرف سے منع کرنے کے باوجود وہ لوگ باز نہ آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (مجمع البیان)

یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر السام علیک یا ابا لقاسم کہا کرتے تھے۔ یعنی اے ابو القاسم تجھے موت آئے (نعوذ باللہ)۔ ان توہین آمیز الفاظ پر ان پر فوری عذاب نازل نہ ہوا۔ وہ اس بات کو دلیل قرار دیتے تھے کہ آنحضور ﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ اللہ مجرموں کو جو مہلت دیتا ہے، اس سے وہ یہی خیال کرتے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں نہ کیا کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی سرگوشیاں کیا کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم جمع کیے جاؤ گے۔

9۔ ایسے لوگوں سے خطاب ہے جن پر ”ایمان والے“ کا لفظ صادق آ سکتا ہے کہ وہ اثم و عدوان اور معصیت رسول ﷺ کے موضوع پر سرگوشی نہ کریں۔ تمہاری سرگوشی کا موضوع نیکی اور تقویٰ ہونا چاہیے۔ ہر قسم کی سرگوشی کے لیے حکم یہ ہے: اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجی اثنان دون صاحبہما فان ذلک یحزنہ (صحیح مسلم باب تحریم مناجاۃ الکافی 2: 660) اگر تین افراد ایک جگہ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں، اس سے اس کو دکھ ہو گا۔

اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔(منافقانہ) سرگوشیاں تو بلاشبہ صرف شیطان ہی کی طرف سے ہوتی ہیں تاکہ مومنین کو رنجیدہ خاطر کرے حالانکہ وہ اذن خدا کے بغیر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور مومنین کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

10۔ خفیہ سرگوشی ایک پوشیدہ خطرہ ہے اور یہ نظر آنے والی لشکر کشی سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ لشکر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن خفیہ سرگوشیوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔