آیت 10
 

اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔(منافقانہ) سرگوشیاں تو بلاشبہ صرف شیطان ہی کی طرف سے ہوتی ہیں تاکہ مومنین کو رنجیدہ خاطر کرے حالانکہ وہ اذن خدا کے بغیر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور مومنین کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

تفسیر آیات

۱۔ منافقین کی سرگوشیوں سے اہل ایمان پریشان ہوتے تھے کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہو گا۔ مومنوں کے لیے بھی حکم ہے کہ اس قسم کی سرگوشی نہ کریں کہ دوسرے پریشان ہو جائیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اِذَا کَانَ ثَلَاثَۃٌ فِی بَیْتٍ فَلَا یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُوْنَ صَاحِبِھِمَا فَاِنَّ ذَلِکَ مِمَّا یَغُمُّہُ۔ (الکافی۲:۶۶۰)

اگر گھر میں افراد تین ہیں تو ان میں سے دو آپس میں تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں چونکہ اس سے اسے رنج ہوتا ہے۔

اسی مضمون کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبد اللہ بن مسعود نے روایت کی ہے۔

۲۔ وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا: ان کی سرگوشیوں سے مومنین کو پریشانی کے علاوہ کوئی ضرر نہ ہو گا۔

۳۔ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ: کوئی اذیت اور تکلیف ہو گی تو ان کی سرگوشیوں کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ باذن خدا ہو گی جیسے جہاد در راہِ خدا۔


آیت 10