آیت 8
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۸﴾

۸۔ کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کیا گیا تھا؟ جس کام سے انہیں منع کیا گیا تھا وہ پھر اس کا اعادہ کر رہے ہیں اور آپس میں گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو وہ آپ کو اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طریقے سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے آپ سے کہتے ہیں: اللہ ہماری باتوں پر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟ ان کے لیے جہنم کافی ہے جس میں وہ جھلسائے جائیں گے، جو بدترین انجام ہے۔

شان نزول: یہود اور منافقین آپس میں سرگوشیاں کرتے اور مومنوں کو دیکھ کر آنکھوں سے اشارے کرتے تھے۔ مومنین اس خیال سے فکر مند ہوتے کہ جو لوگ کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے ہیں شاید انہیں کسی جانی نقصان یا شکست وغیرہ سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شکایت ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے منع کرنے کے باوجود وہ باز نہ آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ: الاثم، فاحش، وہ گناہ جو حقوق اللہ سے متعلق ہے اور الْعُدْوَانِ ، دوسروں پر زیادتی، جو حقوق العباد سے متعلق ہے۔ ان لوگوں کی سرگوشیوں میں یہ دونوں باتیں شامل تھیں۔

۲۔ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ: اور جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ہوتے تھے ان کی خلاف ورزی کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔

۳۔ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ: یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر السام علیک یا ابا القاسم کہتے تھے۔ السام موت کو کہتے ہیں۔ ان توہین آمیز الفاظ پر ان پر فوری عذاب نازل نہ ہوا۔ وہ اسے دلیل قرار دیتے تھے کہ اگر وہ رسول ہوتے تو ہماری اس اہانت کی وجہ سے ہم پر عذاب آ جاتا حالانکہ اللہ مجرموں کو مہلت دیتا ہے۔ یہ مہلت خود ان کے عذاب میں اضافے کا سبب بنتی ہے لہٰذا مہلت خود عذاب ہے لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔


آیت 8