آیت 7
 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا ۚ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۷﴾

۷۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کے بارے میں جانتا ہے، کبھی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے اور نہ پانچ آدمیوں کی مگر یہ کہ ان کا چھٹا اللہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ جہاں کہیں ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

تشریح کلمات

نَّجۡوٰی:

( ن ج و ) سرگوشی کرنا۔ اس کے اصل معنی بلند زمین پر کسی کے ساتھ تنہا ہونے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ: اللہ تعالیٰ کو کل کائنات میں موجود تمام چیزوں کا علم ہے:

وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا۔۔۔ (۶ انعام: ۵۹)

کوئی پتہ بھی نہیں گرتا مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا ہے۔

۲۔ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی: ان آیات میں منافقین کی باہمی منصوبہ بندیوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں رہ کر اپنی ایک الگ جماعت بنا رکھی تھی اور آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان منافقین کی سازشوں کے بارے میں اپنے علم کا اظہار فرمایا کہ اللہ تمہاری سرگوشیوں کو قریب سے سنتا ہے جس طرح تین آدمی سرگوشی کر رہے ہوں اور چوتھا آدمی بھی ساتھ بیٹھا ہو تو اسے بھی علم ہو گا۔ اسی طرح ہر تعداد کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھی ان کے راز سے واقف ہے۔

اس آیت میں ایک بلاغی پہلو یہ ہے کہ تکرار کے بغیر تین، چار، پانچ اور چھ کا ایک بار ذکر ہے ورنہ اس مطالب کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا تھا: ما یکون من نجوی ثلاتہ الا ھو رابعہم ولا اربعۃ الا ھو خامسہم ولا خمسۃ الا ھو سادسہم۔ آیت میں اربع کے بعد اربعۃ کی تکرار نہیں ہے۔

۳۔ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ: ہر تعداد کے ساتھ اللہ تعالیٰ موجودہے۔ یہاں کچھ لوگ معیت سے مراد علم لیتے ہیں یعنی علم خدا ان کے ساتھ ہے، خود خدا ساتھ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے نظریے کے مطابق ہے جو صفات خدا کو زائد بر ذات سمجھتے ہیں۔ اس جگہ علم خدا ہے، خود خدا نہیں ہے تو ذات صفات سے جدا ہو جاتی ہے اور یہ کہنا یہاں علم خدا ہے خود خدا نہیں ہے خدا کو مکانی اور محدود شمار کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ شیعہ امامیہ کے نزدیک باطل ہے۔ صفات خدا عین ذات ہیں۔ جس طرح چار اور جفت قابل تفریق نہیں ہے اس طرح ذات و صفات الٰہی قابل تفریق نہیں ہے۔ آیت میں معیت سے مراد معیت وجودی ہے کہ اللہ ان کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے کوئی جگہ اللہ سے خالی نہیں ہے لہٰذا ان منافقین کی سرگوشی کے پاس اللہ موجود ہے۔

۴۔ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا: یہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں وہاں خدا ہے۔ اللہ کسی مکان میں نہیں اور کوئی مکان اللہ سے خالی نہیں ہے۔

اللہ کو کسی خاص مکان میں محدود سمجھنے والوں کا نظریہ اور ذات و صفات میں تفریق کا نظریہ باطل ہونے پر کلامی کتب میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

۵۔ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ: اپنی ان سازشوں کا نتیجہ ان لوگوں نے قیامت کے دن دیکھنا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ ہر چیز کے ساتھ ہے، نہ مقارنت (نزدیک ہونے) کے اعتبار سے۔

۲۔ ہر چیز سے وہ جدا ہے، نہ دوری کے اعتبار سے۔ (امام علی علیہ السلام)


آیت 7