روح پھونکنا


وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ اور اس خاتون کو بھی (نوازا) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اس لیے ہم نے ان میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو تمام اہل عالم کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔

91- انسانی تخلیق کے لیے پہلے نطفہ، پھر اس میں روح پھونکنا ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت قانون فطرت کے دائرے سے خارج نہ تھی۔ صرف یہ کہ حمل اور نفخ روح دو الگ مرحلوں میں نہیں ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے، بلکہ یہ کام ایک ہی مرحلے میں ہو گیا یعنی نفخ روح کے ساتھ ساتھ۔

ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے

14۔ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ : حیات و شعور کا مالک بنا دیا۔ حیات اس کائنات کی پراسرار مخلوق اور اپنے خالق کی خلاقیت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔

9۔ یہ بات اگرچہ مسلّم ہے کہ مردہ مادے سے حیات پیدا نہیں ہوتی۔ حیات، حیات ہی سے پیدا ہو سکتی ہے، تاہم حیات مادے کی گود میں پرورش پاتی ہے۔