الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو (جنت) فردوس کی میراث پائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔

ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾

۱۳۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا دیا۔

13۔ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً : پھر ہم نے اس مٹی کو نطفہ بنا دیا۔ اس وقت تک کی معلومات کے مطابق نطفہ نصف سیل (Cell) کا نام ہے جو جرثومہ پدر اور تخم مادر سے عبارت ہے۔ آیت کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب جرثومہ پدر تخم مادر کے ساتھ مل جاتا ہے تو نطفہ وجود میں آتا ہے۔ فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ اس نطفے کو ایسے مستقر میں رکھ دیا جو مکین یعنی طاقتور ہے۔ جو اس نطفے کو تحفظ دے سکتا اور اس کی پرورش کر سکتا ہے۔ یہ طاقتور جگہ رحم مادر ہے۔

ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے

14۔ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ : حیات و شعور کا مالک بنا دیا۔ حیات اس کائنات کی پراسرار مخلوق اور اپنے خالق کی خلاقیت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

ثُمَّ اِنَّکُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔پھر اس کے بعد تم بلاشبہ مر جاتے ہو۔

ثُمَّ اِنَّکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ تُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ پھر تمہیں قیامت کے دن یقینا اٹھایا جائے گا۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ ٭ۖ وَ مَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں اور ہم تخلیقی کارناموں سے غافل نہیں ہیں۔

17۔ سات آسمان کی جگہ سات راستوں کا ذکر قابل توجہ ہے۔ کیا آسمان راستوں سے عبارت ہے یا کیا آسمانوں کی تعداد کے مطابق سات راستے ہیں۔ دونوں صورتوں میں معلوم ہوا زمین پر اللہ کی تدبیر پر مشتمل احکام سات آسمانوں یا سات راستوں سے آتے ہیں۔ اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا: ہم تخلیقی عمل سے غافل نہیں ہیں۔ اس جملے کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں کہ خلق کرنے کے بعد ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔

وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسۡکَنّٰہُ فِی الۡاَرۡضِ ٭ۖ وَ اِنَّا عَلٰی ذَہَابٍۭ بِہٖ لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ اور ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی برسایا پھر اسے زمین میں ہم نے ٹھہرایا اور ہم یقینا اسے ناپید کرنے پر بھی قادر ہیں۔

18۔ ممکن ہے اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اہل ارض کے لیے ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ وہ پانی کی قلت کا شکار ہو جائیں۔ فَاَسۡکَنّٰہُ فِی الۡاَرۡضِ ۔ پھر اس پانی کو ہم نے زمین میں ٹھہرایا۔ اس سے واضح ہوا کہ قرآن نے چودہ صدیوں پہلے یہ بات واضح کر دی تھی کہ زیر زمین آبی ذخائر کا تعلق بارشوں سے ہے۔ جبکہ انسان کو بہت بعد میں اس حقیقت کا علم ہوا۔

فَاَنۡشَاۡنَا لَکُمۡ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ ۘ لَکُمۡ فِیۡہَا فَوَاکِہُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگور کے باغات پیدا کیے جن میں تمہارے لیے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

وَ شَجَرَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَیۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ وَ صِبۡغٍ لِّلۡاٰکِلِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور اس درخت کو بھی پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔

20۔ ان درختوں کا خاص طور پر ذکر، ممکن ہے ان کی افادیت کی وجہ سے ہو اور ممکن ہے کہ اس لیے بھی ہو کہ یہ درخت سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک پھل دیتے رہتے ہیں۔