وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ اور اس خاتون کو بھی (نوازا) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اس لیے ہم نے ان میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو تمام اہل عالم کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔

91- انسانی تخلیق کے لیے پہلے نطفہ، پھر اس میں روح پھونکنا ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت قانون فطرت کے دائرے سے خارج نہ تھی۔ صرف یہ کہ حمل اور نفخ روح دو الگ مرحلوں میں نہیں ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے، بلکہ یہ کام ایک ہی مرحلے میں ہو گیا یعنی نفخ روح کے ساتھ ساتھ۔

اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۫ۖ وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ﴿۹۲﴾

۹۲۔ یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کرو۔

92۔ تمام انسانوں کا رب ایک ہے تو لازماً سب انسان ایک ہی امت ہیں۔ سب اللہ کے بندے ہیں اور تمام انبیاء اسی ایک رب کی طرف بلانے آئے ہیں۔ لیکن لوگوں نے اس ایک پیغام کو اپنی اپنی خواہشات و مفادات کے تحت کچھ بڑھا کر کچھ گھٹا کر مختلف فرقے بنا دئیے۔

وَ تَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ ؕ کُلٌّ اِلَیۡنَا رٰجِعُوۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ لیکن انہوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال دیا۔ آخرکار سب نے ہماری طرف رجوع کرنا ہے۔

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ۚ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ پس جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہو گی اور ہم (اس کے اعمال) اس کے لیے لکھ رہے ہیں۔

94۔ عمل کو ایمان سے قیمت ملتی ہے۔ اگر ایمان نہیں تو بے ایمان کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ایمان کے بغیر عمل کو قیمت نہیں ملتی، اسی طرح عمل کے بغیر ایمان کو وجود نہیں ملتا۔

وَ حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے (مکینوں) کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (دوبارہ ) لوٹ کر آئیں۔

95۔ جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ہو، ان کے لیے واپسی ممکن نہیں۔ اس پورے سفر میں واپسی ممکن نہیں۔ نہ شکم مادر سے صلب پدر کی طرف، نہ روئے زمین سے شکم مادر کی طرف، نہ قبر سے روئے زمین کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔

حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج (کا راستہ) کھول دیا جائے گا تو وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے۔

96۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج ایسی درندگی کی علامت ہیں جو کسی انسانی و اخلاقی قدروں کو نہیں جانتے۔ وہ ہر طرف سے پر امن لوگوں پر حملہ کریں گے، بلکہ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ وہ اونچی جگہوں سے حملہ آور ہوں گے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ قیامت کے نزدیک ہونے کی علامات میں سے ایک خروج دجال و یاجوج و ماجوج ہے۔

وَ اقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَقُّ فَاِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبۡصَارُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ یٰوَیۡلَنَا قَدۡ کُنَّا فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا بَلۡ کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اور برحق وعدہ قریب آنے لگے گا تو کفار کی آنکھیں یکایک کھلی رہ جائیں گی، (وہ کہیں گے) ہائے ہماری تباہی! ہم واقعی اس سے غافل تھے، بلکہ ہم تو ظالم تھے ۔

97۔ قیامت کا دہشت ناک منظر دیکھنے کے بعد کافر پہلے تو یہ کہیں گے کہ ہم نے خیال نہیں کیا تھا کہ قیامت اس قدر خوفناک ہے۔ بعد میں متوجہ ہو جائیں گے کہ انبیاء نے ساری صورت حال بیان کی تھی۔ لیکن ہم نے ان کی بات تسلیم نہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔

اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔ بتحقیق تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں جہاں تمہیں داخل ہونا ہے۔

98۔ اس سے مراد وہ معبود ہیں جو عقل و شعور نہیں رکھتے اور خود بھی غیر اللہ کو معبود بنانے میں ملوث نہیں ہیں۔ کیونکہ عربی زبان میں ما صاحب عقل کے لیے استعمال نہیں ہوتا، لہذا یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام و ملائکہ بھی شامل ہیں جن کی لوگ پرستش کرتے ہیں۔

لَوۡ کَانَ ہٰۤؤُلَآءِ اٰلِہَۃً مَّا وَرَدُوۡہَا ؕ وَ کُلٌّ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اگر یہ معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور اب سب کو اسی میں ہمیشہ رہنا ہے۔

لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جہنم میں ان کا شور ہو گا اور وہ اس میں کچھ نہ سن سکیں گے۔