آیت 14
 

ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے

تفسیر آیات

۱۔ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً

۲۔ فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً: ان دونوں جملوں کی تشریح سورہ حج آیت ۵ میں گزر چکی ہے۔

۳۔ فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا: اس لوتھڑے سے ہڈیوں کی ساخت کا مرحلہ آتا ہے۔ ہڈیوں کی ساخت کے لیے مواد مضغۃ سے لیا گیا ہے۔ مضغۃ کے خلیے ہڈی کے خلیوں میں بدل جاتے ہیں۔ انسان میں ہڈیوں کے کردار کے بارے میں یہاں ہم کچھ نہیں لکھتے۔ اس موضوع پر بیسیوں کتابیں علم الجنین پر لکھی گئی ہیں۔

۴۔ فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا: تعبیر بدل گئی۔ گزشتہ تعبیروں کی طرح فخلقنا العظام لحماً پھر ہم نے ہڈی سے گوشت بنایا، نہیں فرمایا بلکہ فرمایا: ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، ہڈیوں کو گوشت پہنایا۔ اس جملے سے اشارہ ملتا ہے کہ گوشت کی ساخت کے لیے مواد ہڈیوں سے نہیں لیے جاتے، ہڈی تبدیل ہو کر گوشت نہیں بنتی بلکہ گوشت کی تخلیق کے لیے دیگر ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ عیناً یہی بات ماہرین کے علم میں آگئی ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ انسانی تخلیق نطفہ سے ہڈیوں تک ہے اور تمام راز ہائے تخلیق ہڈیوں میں پوشیدہ ہیں۔ گوشت، تن کی زیبائش کے لیے ایک لباس ہے۔

۵۔ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ: اس کے بعد یہ جنین عالم حیات میں قدم رکھتا ہے۔ اس خلق آخر کے ساتھ ایک مختصر کائنات وجود میں آتی ہے۔ اس کائنات کا پراسرار ترین راز، حیات وجود میں آتی ہے۔ حیات، اللہ کا عظیم معجزہ، قدرت کی حیرت انگیز کرشمہ سازی ہے۔ کائنات کے ذرہ ذرہ سے بے ساختہ یہ آواز، یہ نعرہ بلند ہوتا ہے۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ۔

۶۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ: خلق کے لغوی معنی تقدیرکے ہیں۔ یہاں سے خلق کے دو معنی بنتے ہیں: خلق تقدیری اور خلق ابداعی۔ خلق ابداعی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو سکتا ہے چونکہ ابداع کے معنی عدم سے وجود میں لانے کے ہیں: بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۱۷(ترجمہ) وہ آسمانوں اور زمین کاموجد ہے۔) جبکہ خلق تقدیری کا اطلاق غیر اللہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب ہوا: وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۱۰ (ترجمہ) اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے۔) تاہم اللہ کی تخلیق اور اللہ کے علاوہ دوسروں کی تخلیق میں اساسی فرق ہے۔ اللہ عدم سے وجود میں لاتا ہے اور غیر اللہ، اللہ کی خلق کردہ چیز کو جوڑتا ہے۔ جیسے گلِ سے پرندے کی شکل بنانا۔ اللہ تعالیٰ کو یہاں خلق تقدیری کے معنوں میں اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ کہا گیا ہے۔


آیت 14