بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی،

1۔ بروج سے قدیم ہیئت کے مطابق آسمان کے 12 بروج کو مراد لینا قطعی درست نہیں ہے۔ قرآن بروج کو آسمان میں ستاروں کے مقامات کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔

وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے،

وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور حاضر ہونے والے کی اور اس (دن) کی جس میں حاضری ہو،

قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ خندقوں والے ہلاک کر دیے گئے۔

4۔ یعنی آتشیں خندق بنا کر اس میں مومنوں کو جلانے والوں پر ہلاکت ہو۔ یہ اشارہ ہے ایک خاص واقعے کی طرف جو بنا بر روایت تفسیر قمی، یمن کا یہودی بادشاہ حمیری خاندان کا تھا۔ اس کا نام ذونواس تھا۔اس نے نجران پر(جو نصاریٰ کا مرکز تھا) حملہ کیا اور وہاں لوگوں کو یہودیت قبول کرنے کی دعوت دی، مگر انہوں نے اس دعوت کو ٹھکرا دیا اور قتل ہونے کو قبول کیا۔ اس ظالم بادشاہ نے لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک دیا۔ اس طرح بیس ہزار افراد کو قتل کیا۔

بعض سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگوں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ کا واقعہ پیش آیا تھا۔

النَّارِ ذَاتِ الۡوَقُوۡدِ ۙ﴿۵﴾

۵۔ وہ آگ تھی جو ایندھن والی ہے،

اِذۡ ہُمۡ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿۶﴾

۶۔ جب وہ اس (کے کنارے) پر بیٹھے تھے،

وَّ ہُمۡ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور وہ مومنین کے ساتھ روا رکھے گئے اپنے سلوک کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور ان (ایمان والوں) سے وہ صرف اس وجہ سے دشمنی رکھتے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے تھے جو بڑا غالب آنے والا، قابل ستائش ہے۔

8۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب روئے زمین پر عیسیٰ علیہ السلام کا مذہب اپنے صحیح خد و خال میں لوگوں میں رائج تھا۔ اسی لیے اللہ نے انہیں مومنین کہا ہے۔

الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ؕ﴿۹﴾

۹۔ وہی جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

9۔ قرآن اس واقعے کو زندہ رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ ان کو صرف اس جرم میں جلا دیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ ان لوگوں کا اللہ کے ہاں بہت درجہ ہے جو محض برائے خدا اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَتُوۡبُوۡا فَلَہُمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَ لَہُمۡ عَذَابُ الۡحَرِیۡقِ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ جن لوگوں نے مومنین اور مومنات کو اذیت دی پھر توبہ نہیں کی ان کے لیے یقینا جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔

10۔ فَتَنُوا : الفتنہ۔ آزمائش کو بھی کہتے ہیں اور ضلالت اور شرک کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اذیت کے معنوں میں بھی۔ جیسا کہ اس آیت میں یُفۡتَنُوۡنَ عذاب کے معنی میں ہے: یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ ۔ (ذاریات 13) اہل ایمان کو اذیت دینے والوں کے لیے اگرچہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے، وہ باز آ جائیں، نجات کا راستہ موجود ہے۔ البتہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں جہنم ہی ان لوگوں کا ٹھکانا ہے۔