آیات 8 - 9
 

وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور ان (ایمان والوں) سے وہ صرف اس وجہ سے دشمنی رکھتے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے تھے جو بڑا غالب آنے والا، قابل ستائش ہے۔

الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ؕ﴿۹﴾

۹۔ وہی جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

تفسیر آیات

یہ اس زمانے کی بات ہے جب روئے زمین پر عیسائی مذہب اپنے صحیح خد و خال میں لوگوں میں رائج تھا۔ اسی لیے اللہ نے انہیں مؤمنین کہا ہے۔

صرف ایمان و عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کا قتل بہت بڑا جرم ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی کسی کو صرف اس کے عقیدے کی بنیاد پر قتل کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ یہود یا نصاریٰ کیوں نہ ہوں۔ قتل ان کافروں کو کیا جاتا ہے جو مسلمانوں سے حالت جنگ میں ہوں۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاہتا ہے کیونکہ انہیں صرف اس جرم میں جلا دیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ ان لوگوں کا اللہ کے ہاں بڑا درجہ ہے جو محض برائے خدا اپنے ایمان پر صبر و استقامت کے ساتھ جان فدا کر دیتے ہیں۔

چونکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا ایمان منطقی اور عقلی اعتبار سے نہایت وزنی ہے۔ چونکہ وہ اس ذات پر ایمان لاتے ہیں جو کل کائنات کا مالک ہے جس کی ملکیت اور حکومت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔


آیات 8 - 9