بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾

۱۔ اس نے ترشروئی اختیار کی اور منہ پھیر لیا،

1۔ اہل سنت کے مصادر میں آیا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکے کے چند بڑے سرداروں کو اسلام کی دعوت دینے میں مشغول تھے، اس وقت حضرت ابن ام مکتوم جو نابینا تھے، حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند اسلامی تعلیمات بیان کرنے پر اصرار کرنے لگے، رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مداخلت کو ناپسند کیا اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے بے رخی برتی، اس پر یہ سورہ نازل ہوا۔ شیعہ مصادر میں آیا ہے کہ یہ ترشروئی اختیار کرنے والا بنی امیہ کا ایک شخص تھا جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت ابن ام مکتوم آیا تو اس نے منہ چڑایا اور ترشروئی اختیار کی، اس شخص کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کچھ لوگ اسے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی غلطی شمار کرتے ہیں (معاذ اللہ)۔ سنی روایات کے مطابق بھی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے مخاطب نہیں ہیں، بلکہ ان آیات میں سر دلبران در حدیث دیگران کے طور پر اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ اس عظیم کارواں میں ایک نابینا مومن کئی سرداروں سے زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہی نادار لوگ اس دین کے لیے قربانی پیش کر سکتے ہیں، ورنہ مراعات یافتہ لوگ اس دین کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ اس قسم کا طرز خطاب قرآن میں بہت زیادہ ہے کہ مخاطب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسروں کو سنانا مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ (زمر: 65) اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر آپ شرک کا ارتکاب کریں تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل حبط ہو جائے گا۔ اس طرح حقیقی مخاطب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں، بلکہ وہ کردار یا وہ سوچ ہے جو دنیا والوں پر حاکم ہے اور جس کے تحت ناداروں کے ساتھ بے اعتنائی برتی جاتی ہے اور تمام تر اہمیت مراعات یافتہ طبقے کو مل جاتی ہے۔

اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾

۲۔ ایک نابینا کے اس کے پاس آنے پر۔

وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور آپ کو کونسی چیز بتائے گی شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا۔

اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾

۴۔ یا نصیحت سنتا اور نصیحت اسے فائدہ دیتی۔

اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور جو (اپنے آپ کو حق سے) بے نیاز سمجھتا ہے،

فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾

۶۔ سو آپ اس پر توجہ دے رہے ہیں۔

وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ بھی کرے تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور لیکن جو آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا،

وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور وہ خوف (خدا) بھی رکھتا تھا،

فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ اس سے تو آپ بے رخی کرتے ہیں۔