آیات 8 - 10
 

وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور لیکن جو آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا،

وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور وہ خوف (خدا) بھی رکھتا تھا،

فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ اس سے تو آپ بے رخی کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مراعات یافتہ شخص کا تقابل ایک مؤمن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ مراعات یافتہ شخص اپنی امیری اور بے نیازی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے ایک نادار مؤمن آپ کے پاس اشتیاق سے چل کر آتا ہے۔

۲۔ یَسۡعٰی: اشتیاق کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مؤمن آپ کی بارگاہ میں سعی و اشتیاق سے آتا ہے۔ سعی سے مراد تیز قدم والا دوڑنا نہیں ہے۔ ایک نابینا دوڑ نہیں سکتا بلکہ اس سے مراد اشتیاق ہے۔

۳۔ وَ ہُوَ یَخۡشٰی: وہ مؤمن دل میں یہ خوف رکھتا ہے کہ اطاعت الٰہی میں کوتاہی نہ ہو۔ اس خوف کی وجہ سے وہ بڑے اشتیاق و رغبت کے ساتھ آپ کے پاس آیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرض منصبی یہ ہے کہ جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو، ان کی تنبیہ کریں:

اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ۔ (۳۵ فاطر: ۱۸)

آپ تو صرف انہیں ڈرا سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں

۴۔ فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی: پھر بھی آپ اس سے بے رخی کرتے ہیں۔ یعنی شوق و رغبت کے ساتھ آپ سے کچھ سیکھنے آتا ہے اور اس کے دل میں خوف خدا بھی ہوتا ہے۔ کیا اس ایمانی دولت سے مالا مال شخص سے وہ شخص زیادہ قابل توجہ ہے جس کے پاس مال دنیا ہے؟

یہ آیت بھی اس کردار اور اس سوچ کی طرف اشارہ ہے جو دنیا والوں پر حاکم ہے جس کے تحت تمام تر اہمیت مراعات یافتہ طبقہ کو مل جاتی ہے۔


آیات 8 - 10