بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ حاقہ

مشرکین مکہ نہ صرف قیامت کے منکر تھے بلکہ اسے ناممکن و نامعقول سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ایسے منکروں کے لیے یہ اسلوب کلام اختیار کیا گیا کہ جس شد و مد سے وہ اس کے منکر تھے، اسی شد و مد سے اسے پیش کیا جا رہا ہے۔

اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ حتمی وقوع پذیر۔

1۔ قیامت کی وہ گھڑی جس کے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے۔

مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾

۲۔وہ حتمی وقوع پذیر کیا ہے؟

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا کہ وہ حتمی وقوع پذیر کیا ہے؟

3۔ اس کی ہولناکیوں کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ یعنی آپ کے اندازوں سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔

کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ وَ عَادٌۢ بِالۡقَارِعَۃِ﴿۴﴾

۴۔ ثمود اور عاد نے اس کھڑکا دینے والے واقعے کو جھٹلا دیا تھا۔

4۔ یہ وہی واقعہ ہے جسے عاد اور ثمود نے جھٹلایا تھا تو اس تکذیب کے نتیجے میں ثمود کو تو حد سے زیادہ سخت ترین واقعہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا اور عاد کو ایک طوفانی آندھی نے تباہ کر دیا تھا۔

فَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَاُہۡلِکُوۡا بِالطَّاغِیَۃِ﴿۵﴾

۵۔ پھر ثمود کو تو اس طغیانی حادثے سے ہلاک کر دیا گیا۔

وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور عاد کو ایک سرکش طوفانی آندھی سے ہلاک کر دیا گیا۔

سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَی الۡقَوۡمَ فِیۡہَا صَرۡعٰی ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِیَۃٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ جسے اس نے مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک ان پر مسلط رکھا، پس آپ ان لوگوں کو وہاں دیکھیے اس طرح پڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔

حُسُوۡمًا : ایک معنی پے در پے کے ہیں۔ ترجمہ میں لفظ مسلسل اس کا ترجمہ اختیار کیا ہے۔ اس کا دوسرا معنی کاٹنے سے کیا گیا ہے۔ حاسم کاٹنے والے کو کہتے ہیں۔

فَہَلۡ تَرٰی لَہُمۡ مِّنۡۢ بَاقِیَۃٍ﴿۸﴾

۸۔ کیا ان میں سے تجھے کوئی باقی ماندہ نظر آ رہا ہے؟

وَ جَآءَ فِرۡعَوۡنُ وَ مَنۡ قَبۡلَہٗ وَ الۡمُؤۡتَفِکٰتُ بِالۡخَاطِئَۃِ ۚ﴿۹﴾

۹۔ اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور سرنگوں شدہ بستیوں نے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔

9۔ اس سے مراد قوم لوط ہے، جس کا ذکر اس سے پہلے سورہ ہود اور سورہ حجر میں آ چکا ہے۔

فَعَصَوۡا رَسُوۡلَ رَبِّہِمۡ فَاَخَذَہُمۡ اَخۡذَۃً رَّابِیَۃً﴿۱۰﴾

۱۰۔ پھر انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ نے انہیں بڑی سختی کے ساتھ گرفت میں لے لیا۔