بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ الطُّوۡرِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے طور کی،

1۔ طور وہ کوہ ہے جہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نبوت لے کر لوٹے۔

وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور لکھی ہوئی کتاب کی،

فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾

۳۔ ایک کشادہ ورق میں،

3۔ کوہ طور کی مناسبت سے ممکن ہے کہ باریک چمڑے پر لکھی گئی کتاب سے مراد توریت ہو۔

وَّ الۡبَیۡتِ الۡمَعۡمُوۡرِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور بیت معمور (آباد گھر) کی،

4۔ احادیث کے مطابق بیت معمور اس گھر کو کہتے ہیں جو کعبہ کے اوپر آسمانوں میں بنا ہوا ہے اور فرشتوں کی جائے عبادت ہے۔ خانہ کعبہ بھی روئے زمین کا پہلا بیت معمور (بنایا گیا گھر) ہے۔

وَ السَّقۡفِ الۡمَرۡفُوۡعِ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور بلند چھت کی،

5۔ اونچی چھت سے مراد آسمان ہے۔ یعنی اس ذات نے ان چیزوں کو عبث نہیں بنایا۔ اس نے جس مقصد کے لیے ان کو خلق کیا ہے اس کے تحت قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے اور سرکشوں کے لیے عذاب بھی لازمی ہے۔

وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور موجزن سمندر کی،

الۡمَسۡجُوۡرِ کے دوسرے معنی آگ کے ہیں۔ یعنی آگ اور بھاپ میں تبدیل ہونے والے سمندر کی قسم۔ شاید یہی معنی قرین سیاق ہیں۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے، حضرت علی علیہ السلام نے ایک یہودی سے پوچھا: تمہاری کتاب میں آگ کی جگہ کون سی ہے۔ اس نے کہا: سمندر۔ آپ نے فرمایا: یہ شخص صحیح کہ رہا ہے۔ ہماری کتاب میں بھی ہے: وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ زبدۃ التفاسیر6: 487) اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا: قسم ہے آتشیں سمندر کی۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ ۙ﴿۷﴾

۷۔ آپ کے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے،

مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اسے ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔

یَّوۡمَ تَمُوۡرُ السَّمَآءُ مَوۡرًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اس روز آسمان بری طرح تھرتھرائے گا،

وَّ تَسِیۡرُ الۡجِبَالُ سَیۡرًا ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ اور پہاڑ پوری طرح چلنے لگیں گے۔

10۔ موجودہ آسمان و زمین اور موجودہ نظام کائنات ایک مرتبہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک اور کائنات اور نظام کو ترتیب دے گا۔