فَوَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ پس اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے تباہی ہے،

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ خَوۡضٍ یَّلۡعَبُوۡنَ ﴿ۘ۱۲﴾

۱۲۔ جو بیہودگیوں میں کھیل رہے ہیں۔

12۔ خَوۡضٍ قابل مذمت کام میں لگ جانے کے معنوں میں ہے۔ یعنی انبیاء کی دعوت کے مضمرات میں غور کرنے کی بجائے بیہودہ باتوں میں لگے رہتے ہو۔

یَوۡمَ یُدَعُّوۡنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اس دن وہ شدت سے جہنم کی آگ کی طرف دھکیلے جائیں گے۔

ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ یہ وہی آگ ہے جس کی تم لوگ تکذیب کرتے تھے۔

اَفَسِحۡرٌ ہٰذَاۤ اَمۡ اَنۡتُمۡ لَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔ (بتاؤ) کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھتے نہیں ہو؟

اِصۡلَوۡہَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا ۚ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اب اس میں جھلس جاؤ پھر صبر کرو یا صبر نہ کرو تمہارے لیے یکساں ہے، تمہیں تو بہرحال تمہارے اعمال کی جزائیں دی جائیں گی۔

16۔ صبر اس وقت نتیجہ خیز ہوتا ہے کہ جب کسی بہتر انجام کے لیے اختیار کیا جائے۔ جہنمی جب اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے تو اس صبر کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اہل تقویٰ تو یقینا جنتوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔

فٰکِہِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ۚ وَ وَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا کیا ہے اس پر وہ خوش ہوں گے اور ان کا رب انہیں عذاب جہنم سے بچا لے گا۔

کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓـًٔۢا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ خوشگواری سے کھاؤ اور پیو ان اعمال کے عوض جو تم کرتے رہے ہو۔

مُتَّکِئِیۡنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَۃٍ ۚ وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ وہ صف میں بچھی ہوئی مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے اور بڑی آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کا عقد کر دیں گے۔