آیات 1 - 6
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الطور

اس سورۃ المبارکۃ کا نام الطور ہے جو شروع میں مذکور آیت سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکی ہے۔ آیات کی تعداد کوفہ و شام کے قاریان کے مطابق ۴۹ ہے۔ بصرہ کے قاریان کے مطابق ۴۸ آیات ہیں اور حجاز کے قاریان کے مطابق ۴۷ آیات ہیں۔

اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کوفی و شامی قرائت کے مطابق آیت ۱۳ یَوۡمَ یُدَعُّوۡنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ایک مستقل آیت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام محمد باقر علیہما السلام سے روایت ہے:

مَنْ قَرَاَ سُوْرَۃَ الطُّورِ جَمَعَ اللہُ لَہُ خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔ (وسائل الشیعۃ ۶: ۲۵۶)

جو شخص سورۃ الطور کی تلاوت کرے اسے اللہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ایک ساتھ دے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الطُّوۡرِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے طور کی،

وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور لکھی ہوئی کتاب کی،

فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾

۳۔ ایک کشادہ ورق میں،

وَّ الۡبَیۡتِ الۡمَعۡمُوۡرِ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور بیت معمور (آباد گھر) کی،

وَ السَّقۡفِ الۡمَرۡفُوۡعِ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور بلند چھت کی،

وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور موجزن سمندر کی،

تشریح کلمات

الۡمَسۡجُوۡرِ:

( س ج ر ) السجر کے معنی زور سے آگ بھڑکانے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الطُّوۡرِ: قسم ہے طور کی۔ طور پہاڑ کو کہتے ہیں لیکن خاص ہو گیا سینا میں موجود طور کے ساتھ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی تھی۔

۲۔ قسم ہے اس کتاب کی جو کشادہ ورق میں تحریر ہے۔ قدیم زمانے میں کسی تحریر کو محفوظ رکھنا ہو تو اس کو نازک چمڑے پر لکھ لیتے تھے۔ چنانچہ آسمانی کتب صحف انبیاء کو اسی چمڑے پر لکھ لیا کرتے تھے۔

۳۔ قسم ہے آباد گھر کی جو حج، عمرہ، طواف و زیارت اور عبادت کرنے والوں سے آباد رہتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد کعبہ ہے اور دیگر بعض کے نزدیک اس سے مراد بیت معمور ہے جو آسمانوں میں کعبہ کے برابر میں موجود ہے۔ جہاں فرشتے اس کے گرد طواف کرتے ہیں جیسے زمین پر اہل ارض کعبہ کے گرد۔ اس پر متعدد روایات بھی موجود ہیں اور اسلامی اصطلاح میں اسی کو بیت معمور کہتے ہیں۔

۴۔ اور قسم ہے بلند چھت کی یعنی آسمان کی کہ اس نے ان چیزوں کو عبث خلق نہیں فرمایا۔ اس نے جس مقصد کے لے انہیں خلق کیا ہے اس کے تحت قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے اور سرکشوں کے لیے عذاب بھی لازمی ہے۔

سورہ انبیاء آیت ۳۲ میں فرمایا:

وَ جَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا۔۔۔۔

اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔

آسمان کو سقف ایک تو بلندی کی وجہ سے کہا ہے، دوسرے آسمان سے اگر مراد اس ڈھال کو لیا جائے تو ممکن ہے سقف اس لیے کہا ہو کہ اوپر سے آنے والی آفتوں سے یہی ڈھال بچا لیتی ہے۔

۵۔ وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ: قسم ہے سمندر کی جو موجزن ہے۔ الۡمَسۡجُوۡرِ کے دوسرے معنی آگ کے ہیں یعنی آگ اور بھاپ میں تبدیل ہونے والے سمندر کی قسم۔

چنانچہ آیت وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ (۸۱ تکویر: ۶) کی تفسیر یہی بیان کی جاتی ہے کہ سمندر بھڑکتی آگ میں بدل جائے گا۔ شاید یہی معنی قرین سیاق ہیں۔

چنانچہ روایت میں آیا ہے:

حضرت علی علیہ السلام نے ایک یہودی سے پوچھا تمہاری کتاب میں آگ کی جگہ کون سی ہے؟ اس نے کہا: سمندر۔ آپ ؑنے فرمایا: یہ شخص صحیح کہتا ہے۔ ہماری کتاب میں بھی ہے:

وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ۔

اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ ہو گا: قسم ہے: آتشین سمندر کی۔


آیات 1 - 6