آیات 9 - 12
 

یَّوۡمَ تَمُوۡرُ السَّمَآءُ مَوۡرًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اس روز آسمان بری طرح تھرتھرائے گا،

وَّ تَسِیۡرُ الۡجِبَالُ سَیۡرًا ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ اور پہاڑ پوری طرح چلنے لگیں گے۔

فَوَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ پس اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے تباہی ہے،

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ خَوۡضٍ یَّلۡعَبُوۡنَ ﴿ۘ۱۲﴾

۱۲۔ جو بیہودگیوں میں کھیل رہے ہیں۔

تشریح کلمات

مَوۡرًا:

( م و ر ) المور کے معنی تیز رفتاری کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قیامت ایک کائناتی انقلاب کا نام ہے۔ موجودہ آسمان و زمین اور نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ اس کی جگہ اللہ ایک جدید کائنات اور نظام ترتیب دے گا:

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۱۰۴)

اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹے ہیں۔

یا پھر فرمایا:

کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۱۰۴)

جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی اسے ہم پھر دہرائیں گے

یعنی جدید کائنات بنائیں گے۔

۲۔ وَّ تَسِیۡرُ الۡجِبَالُ سَیۡرًا: پہاڑ ریزہ ہو کر بادل کی طرح چلنے لگیں گے۔ دیگر قرآنی آیات میں بھی فرمایا:

وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ (۱۰۱ قارعۃ:۵)

اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے۔

۳۔ فَوَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ: اس دن تکذیبی عناصر کی ہلاکت کا دن ہو گا جو اس دن کی تکذیب کرتے اور اسے ناممکن خیال کرتے تھے۔

۴۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ خَوۡضٍ: خَوۡضٍ قابل مذمت کام میں لگ جانے کے معنوں میں ہے یعنی وہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے مضمرات پر غور کرنے کی بجائے بیہودہ باتوں میں لگے رہتے تھے: وہ بیہودہ باتیں یہ تھیں: یہ نبی ساحر ہے، مجنون ہے، کاہن ہے، پھر ان انبیاء علیہم السلام کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔


آیات 9 - 12