وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۷۱﴾

۱۷۱۔اور ان کافروں کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایسے (جانور) کو پکارے جو بلانے اور پکارنے کے سوا کچھ نہ سن سکے، یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس (اسی وجہ سے) یہ لوگ عقل سے بھی عاری ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ﴿۱۷۲﴾

۱۷۲۔ اے ایمان والو! اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو ہماری عطا کردہ پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر کرو۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یقینا اسی نے تم پر مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

173۔ فقہ جعفری کے مطابق جو جانور ذبح شرعی کے بغیر مر جائے، اس مردار سے ہر قسم کا استفادہ حرام ہے۔ چنانچہ اس کا چمڑا دباغت کے ذریعے پاک اور جائز الاستفادہ نہیں ہوتا، جب کہ دوسرے مذاہب میں پاک و جائز ہوتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَشۡتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۚۖ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض میں حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ بس اپنے پیٹ آتش سے بھر رہے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

174۔ جو لوگ حقیر دنیاوی مفادات کی خاطر احکام خداوندی کو درست بیان نہیں کرتے، دراصل وہ اپنے شکم کو آگ سے بھر رہے ہیں۔ یہ آیت تجسم اعمال پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی انسان اس دنیا میں جو بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ آخرت میں مجسم ہو کر سامنے آئے گا۔ جو لوگ احکام خدا کو چھپا کر دنیا میں مال و دولت کماتے ہیں قیامت کے دن یہی مال آگ کی شکل اختیار کرے گا۔

قیامت کے دن اللہ ایسے لوگوں سے نہ بات کرے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔ دنیا میں اللہ سے ہمکلام ہونے کا شرف صرف انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے، لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں سے ہم کلام ہو گا۔ قیامت کے دن سب کو اللہ ہی کے سامنے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور حساب و کتاب دینا ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی وَ الۡعَذَابَ بِالۡمَغۡفِرَۃِ ۚ فَمَاۤ اَصۡبَرَہُمۡ عَلَی النَّارِ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے عوض ضلالت اور مغفرت کے بدلے عذاب خرید لیا ہے، (تعجب کی بات ہے کہ) آتش جہنم کے عذاب کے لیے ان میں کتنی برداشت ہے۔

175۔ اللہ تعالیٰ ان کی نادانی اور بے عقلی بیان فرماتا ہے کہ یہ لوگ احکام خدا کو بھی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے چھپانے کا انجام ضلالت اور جہنم ہے۔ اس علم کے باوجود یہ لوگ آتش جہنم میں جانے کے لیے آمادہ ہیں جو مقام تعجب ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِی الۡکِتٰبِ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۱۷۶﴾٪ ۞ٙ

۱۷۶۔یہ (سزا) اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے کتاب تو حق کے مطابق نازل کی تھی اور جن لوگوں نے کتاب کے بارے میں اختلاف کیا، یقینا وہ دور دراز کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔

176۔ احکام خدا چھپانے والوں کو یہ سزا کیوں دی جا رہی ہے اور ان کے یہ گناہ ناقابل معافی کیوں ہیں؟ آیہ شریفہ میں اس کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ اللہ نے حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی، ان لوگوں نے حق کو چھپایا ہے۔ حق پوشیدہ رکھنے کی صورت میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ضلالت و گمراہی اور استحقاق عذاب ہے۔ چنانچہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام اختلافات اور نفرتوں کے ذمے دار یہی لوگ ہیں۔ اس لیے ان کا یہ جرم قابل معافی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اس جرم کے آثار آنے والی تمام نسلوں میں جاری رہتے ہیں۔

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔

177۔ رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے: من عمل بھذہ الایۃ فقد استکمل الایمان ۔ (بحار الانوار 66: 346) جو اس آیت پر عمل کرے اس کا ایمان کامل ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۸﴾

۱۷۸۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، ہاں اگر مقتول کے بھائی کی طرف سے قاتل کو (قصاص کی) کچھ چھوٹ مل جائے تو اچھے پیرائے میں (دیت کا) مطالبہ کیا جائے اور (قاتل کو چاہیے کہ) وہ حسن و خوبی کے ساتھ اسے ادا کرے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے، پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

178۔ یہودیوں کے ہاں قصاص ایک لازمی اور ناقابلِ تلافی سزا ہے۔ ملاحظہ ہو خروج 21، 22 عدد 35۔ عیسائی کہتے ہیں : قصاص کی سزا فقط خاص حالات میں دی جا سکتی ہے۔ اسلام نے یہاں عادلانہ اور فراخدلانہ راہ اختیار کی ہے اور تین راہوں میں سے ایک راہ اختیار کرنے کا حق دیا ہے: ٭قصاص یعنی خون کا بدلہ خون ٭ دیت یعنی خون کا بدلہ مال٭ معافی یعنی نہ خون نہ دیت۔

وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔

179۔ جو لوگ قصاص کو جانوں کے تلف کرنے کا اعادہ اور جذبۂ انتقام کا فروغ تصور کرتے ہیں، ان کی نظر میں قصاص صرف قاتل اور مقتول تک محدود ہے جبکہ قصاص کا تعلق پوری انسانیت سے ہے اور اس قانون سے قتل میں کمی واقع ہو جاتی ہے، خواہ قصاص عملاً معاف ہو جائے یا دیت لے لی جائے نیز قصاص اندھا انتقام نہیں بلکہ یہ ایک مہذب قانون ہے۔ چنانچہ مقتول کے وارثین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود قاتل سے انتقام لیں۔ ورثاء عدالت کی طرف رجوع کریں گے اور اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ قانونِ قصاص پر عمل کرائے خواہ مقتول کا کوئی وارث ہو یا نہ ہو۔ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ جس دن سے زندان نے قصاص کی جگہ لی ہے، دنیا میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے نیز دفاع میں جب قتل سے پہلے قتل جائز ہے، قصاص میں قتل کے بعد قتل کیسے جائز نہ ہو گا۔

قصاص پر اعتراض کرنے والی ایک مہذب قوم نے اپنے ایک فرد کا بدلہ دوسری پوری قوم سے لیا۔ وہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تیسری دنیا میں نسل کشی سے باز نہیں آتے،پھر قصاص کو غیر انسانی عمل کہتے ہیں!

کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۸۰﴾ؕ

۱۸۰۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔

180۔ تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتا ہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درہم تھے آپ علیہ السلام نے وصیت کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: قَال سُبْحَانَہٗ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیْرِ مَالٍ ۔ (فقہ القرآن 2: 301) اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔