آیت 180
 

کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۸۰﴾ؕ

۱۸۰۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔

تشریح کلمات

وَصِیَّت:

( و ص ی ) واقعہ پیش آنے سے پیشتر نصیحت اور ہدایت کرنا۔

المعروف:

( ع ر ف ) وہ عدل و انصاف جس میں کوئی نامعقول بات یا کوئی زیادتی نہ ہو۔

تفسیر آیات

کُتِبَ سے مراد قانون شریعت کا ثبت و تدوین ہے، حکم خواہ واجب ہو یا مستحب۔ البتہ اس بات کے لیے الگ علامت اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ قانون وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے۔

تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتاہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ ۔ {مجموعۃ ورام ۱ : ۱۵۸}

صالح افراد کے لیے پاکیزہ مال کتنا بہتر ہے۔

اس سے یہ رہبانی تصور ختم ہو جاتا ہے کہ مال بذات خود ایک ناپاک چیز ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درہم تھے، آپ (ع) نے وصیت کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

قَالَ سُبْحَانَہٗ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیْرِ مَالٍ ۔ {فقہ القرآن ۲ : ۳۰۱}

اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔

اگر کسی کے پاس کثیر مال ہے تو وہ اس مال کے بارے میں آثار موت ظاہر ہونے پر وصیت کرے۔

وَصِیَّت مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہونے والے نصائح و ہدایات کے لیے استعمال ہوا ہے۔

اس آیت میں وصیت کو ایک پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس میں عدل و انصاف کو مدنظر رکھنے کی تاکید فرمائی ہے نیز وصیت کو متقین کی علامت کے طور پر بیان فرمایاگیا ہے: حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ۔

اہم نکات

۱۔ الٰہی انسان چونکہ زندگی میں اور موت کے بعد بھی مال کے ذریعے قرب الہٰی حاصل کرتا ہے لہٰذا مال اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔

۲۔ وصیت مال و دولت اور رشتہ داروں کے معاملے میں احساس ذمہ داری کا نام ہے۔

۳۔ وصیت وراثت سے محروم رشتہ داروں کو محرومی سے بچانے کا ذریعہ ہے۔

۴۔ وصیت کے لیے معروف یعنی مناسب اور نیکی پر مبنی ہونا شرط ہے

تحقیق مزید: الکافی ۷ : ۱۰، الفقیہ ۴ : ۲۳۵، تفسیر العیاشی ۱ : ۷۷


آیت 180