کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۸۰﴾ؕ

۱۸۰۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔

180۔ تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتا ہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درہم تھے آپ علیہ السلام نے وصیت کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: قَال سُبْحَانَہٗ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیْرِ مَالٍ ۔ (فقہ القرآن 2: 301) اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔