آیت 23
 

وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔اور جس دن جہنم حاضر کی جائے گی، اس دن انسان متوجہ ہو گا، لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ: بعض آیات میں فرمایا کافروں کو جہنم کی طرف چلا جائے گا:

وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۷۱)

اور کفار گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔

بعض دیگر آیات میں ہے کہ جہنم کو نمایاں کر دیا جائے گا:

وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِلۡغٰوِیۡنَ ﴿﴾ (۲۶ شعراء: ۹۱)

اور جہنم گمراہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی۔

اس آیت میں فرمایا: جہنم کو لایا جائے گا۔ کیا اس سے مراد جہنم کا نمایاں کرنا ہے جیسا کہ سورہ زمر کی آیت میں فرمایا کہ کافروں جہنم کی طرف چلائے جائیں گے اور جب وہ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تو فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا جہنم کے دروازے کھول دے جائیں گے۔

اس طرح فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا اور وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے لہٰذا وَ جِایۡٓءَ کا مطلب بھی یہی لینا چاہیے جہنم کو سامنے کر دیا جائے گا۔

لہٰذا مفسرین کا یہ فرمانا درست نہیں ہے کہ لفظ وَ جِایۡٓءَ کو اپنے ظاہری معنی پر ہی حمل کرنا چاہیے اس کی توجیہ غیر ضروری ہے۔

۲۔ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ: جب جہنم کا معائنہ کرنے کی نوبت آ جائے گی تو اس وقت یہ کافر ان باتوں، جو انبیاء علیہم السلام ان سے کہتے رہے ہیں، کی طرف متوجہ ہو گا کہ وہ مبنی برحق تھیں لیکن آج اس توجہ اور ایمان قبول کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

۳۔ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی: کہاں سے اسے فائدہ ملے گا۔ اَنّٰى کلمہ استفہام ہے جو اَیْنَ کے معنوں میں ہے۔ یہ جملہ استفہامیہ ہے جو انکار کے معنوں میں آتا ہے، یعنی فائدہ نہیں ہے۔ اصل میں معنی اس طرح ہیں: این لہ نفع الذکری۔


آیت 23