فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ ﴿ؕ۵۱﴾

۵۱۔ جو شیر سے (ڈر کر) بھاگے ہوں۔

44 تا 51۔ الخوض : بیہودہ گوئی۔ باطل گفتگو میں مگن رہنا۔ یعنی دین اسلام کے خلاف گفتگو کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

جہنم رسید ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ترک نماز اور دوسرا اہم سبب بھوکوں کا خیال نہ رکھنا ہے۔ ترک نماز کی وجہ سے خالق سے دور اور ترک اطعام کی وجہ سے مخلوق سے دور ہونے کی وجہ سے وہ جہنم کے نزدیک ہو گئے۔ وہ روز جزا کی تکذیب کرتے تھے۔جب یہ روز آگیا تو یقین کی منزل بھی آگئی۔ لیکن آج کا یقین انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔ جس وقت ان کو یقین فائدہ دے سکتا تھا، اس وقت وہ نصیحتوں سے ایسے بھاگتے تھے، جس طرح شیر کو دیکھ کر جنگلی گدھے بھاگتے ہیں۔

بَلۡ یُرِیۡدُ کُلُّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّؤۡتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً ﴿ۙ۵۲﴾

۵۲۔ بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ (اس کے پاس) کھلی ہوئی کتابیں آ جائیں۔

52۔ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس پر قرآن کی طرح کی کوئی کتاب نازل ہو جائے۔ یعنی وہ اس قدر منکر ہیں کہ اپنے آپ کو اس مقام کے لیے مناسب سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف کہتے ہیں بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے۔

کَلَّا ؕ بَلۡ لَّا یَخَافُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۵۳﴾

۵۳۔ ہرگز نہیں! بلکہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں ہے۔

کَلَّاۤ اِنَّہٗ تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۵۴﴾

۵۴۔ ہرگز نہیں! یہ تو یقینا ایک نصیحت ہے۔

فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ؕ۵۵﴾

۵۵۔ پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔

وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ ہُوَ اَہۡلُ التَّقۡوٰی وَ اَہۡلُ الۡمَغۡفِرَۃِ﴿٪۵۶﴾ ۞ؓ

۵۶۔ وہ یاد اس وقت رکھیں گے جب اللہ چاہے گا، وہی اس لائق ہے کہ اس سے خوف کیا جائے اور وہی بخشنے کا اہل ہے۔

56۔ حدیث میں آیا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انا اہل ان اتَّقٰی فمن اِتَّقَانِیْ فلم یجعل الھا غیری فانا اہل ان اغفر لہ ۔ (سنن ترمذی کتاب التفسیر۔ اس کے قریب ہے التوحید قمی میں) میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے خوف کیا جائے اور جو مجھ سے خوف کرتا ہے اور میرے علاوہ کسی کو معبود نہیں بناتا، اس کو میں معاف کر دوں گا۔