آیات 10 - 11
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اے ایمان والو! کیا میں ایسی تجارت کی طرف تمہاری رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے؟

تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ (وہ یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اپنی جانوں اور اپنے اموال سے راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم جان لو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ: اس تجارت میں جو سرمایہ لگایا جاتا ہے وہ ایک ناپائیدار وقتی زندگی اور مال ہے جس نے ہر صورت میں ختم ہونا ہے۔ اس تجارت سے جو منافع حاصل ہو گا وہ دائمی عذاب سے نجات اور ابدی نعمتوں والی جنت میں داخل ہونا ہے۔

۲۔ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ: اس سرمائے کا ذکر ہے جو اس منافع بخش تجارت پر لگانا ہے۔ اس کے لیے دو قسم کا سرمایہ درکار ہے۔ ایک ایمان، دوسرا جہاد۔ اس تجارت میں بنیادی سرمایہ ایمان ہے۔ ایمان سے انسان اور انسان کے عمل کو قیمت ملتی ہے اور اسے تجارت میں لگانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ جہاد سے اس ایمان کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ ایمان کے آثار بہت ہیں لیکن جانی و مالی جہاد سے بیشتر اور بہتر ثبوت نہیں ہے۔

تجارت میں بائع اور مشتری ہوتے ہیں۔ بائع بندہ ہے جو اپنی جان اور مال کا حقیقی مالک نہیں ہے اور مشتری اللہ ہے جو اس مال و جان کا حقیقی مالک ہے۔ یہ مال و جان بائع کے پاس امانت تھی ۔امانت واپس کرنے کا مشتری صلہ دیتا ہے اور صلہ بھی اس بائع کو دیتا ہے جو خود اپنا ساختہ (مخلوق) ہے۔


آیات 10 - 11