وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ اور پرندوں کا گوشت لیے جس کی وہ خواہش کریں،

21۔ میوؤں کے بعد پرندوں کے گوشت کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ ماکولات میں پھلوں کے بعد پرندوں کا گوشت طبع انسانی کے ساتھ باقی جانوروں کے گوشت کے مقا بلے میں زیادہ سازگار ہے۔

وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی،

کَاَمۡثَالِ اللُّؤۡلُوَٴ الۡمَکۡنُوۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ جو چھپا کر رکھے گئے موتیوں کی طرح (حسین) ہوں گی۔

جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ یہ ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمًا ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ وہاں وہ نہ بیہودہ کلام سنیں گے اور نہ ہی گناہ کی بات۔

اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ ہاں ! سلام سلام کہنا ہو گا۔

26۔ بیہودگی، نازیبائی، فحاشی اور گناہ ایک غیر متوازن معاشرے میں رونما ہوتے ہیں۔ اہل جنت ان تمام نازیبائیوں سے پاک ہوں گے۔ وہاں ہر طرف امن و سلامتی کی باتیں ہوں گی۔ جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں اس کا نمونہ پیش کرتے تھے۔

وَ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ ۬ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕ۲۷﴾

۲۷۔ اور داہنے ہاتھ والے تو داہنے والوں کا کیا کہنا ،

فِیۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ وہ بے خار بیریوں میں،

وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور کیلوں کے گچھوں،

وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور لمبے سایوں،

30۔ وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ :لمبے سائے۔روایت کے مطابق یہ سائے ایسے ہوں گے، جیسے جو طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیانی حصے کا سایہ ہوتا ہے: ان اوقات الجنۃ کغدوات الصیف لا یکون فیہ حرولا برد (بحار الانوار 8: 109) جنت کے اوقات موسم بہار کی صبح سویرے کی طرح ہوں گے۔ نہ گرمی نہ سردی۔