آیات 28 - 31
 

فِیۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ وہ بے خار بیریوں میں،

وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور کیلوں کے گچھوں،

وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور لمبے سایوں،

وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ اور بہتے پانیوں،

تشریح کلمات

مَّخۡضُوۡدٍ:

( خ ض د ) ایسے درخت جن کے کانٹے توڑ دیے گئے ہوں انہیں مخضود کہا جاتا ہے۔

مَّنۡضُوۡدٍ:

( ن ض د ) منضود اس چیز کو کہتے ہیں جس کا گچھا تہ بہ تہ ہو۔

تفسیر آیات

اصحاب یمین کو جنت میں جن نعمتوں سے نوازا جائے گا ان کا ذکر ہے:

۱۔ وہ بیر کے درخت کے سائے میں ہوں گے۔ جنت کے بیر بے خار ہوں گے بلکہ روایات میں آیا ہے کہ جنت کی بیریوں میں خار کی جگہ انواع و اقسام کے میوے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا بیر بالکل وہی نہیں ہے جو دنیا میں ہے بلکہ قریب المعنی ہونے کی وجہ سے بیر کا ذکر ہوا ہے۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اغْسِلُوا رَءُ وۡسَکُمْ بِوَرَقِ السِّدْرِ فَاِنَّہُ قَدَّسَہُ کُلُّ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَ کُلُّ نَبِیٍّ مُرْسَلٍ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۲۵)

اپنے سروں کو بیر کے پتے سے دھویا کرو چونکہ ہر مقرب فرشتے اور نبی مرسل نے اس کے تقدس کو بیان کیا ہے۔

۲۔ وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ: اور اصحاب یمین ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے کیلوں میں ہوں گے۔ یعنی تہ بہ تہ کیلوں کے میوؤں سے بھی محظوظ ہوں گے۔

واضح رہے جدید ترین طبی تحقیقات کے مطابق پھلوں کی سرداری سیب کی جگہ کیلے کو حاصل ہو رہی ہے۔

۳۔ وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ: لمبے سائے۔ روایت کے مطابق:

فِی مِثْلِ مَا بَیْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ اِلَی طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ اَطْیَبُ مِنْ ذَلِکَ۔۔۔۔ (الکافی ۸: ۹۹)

یہ سائے ایسے ہوں گے جیسے طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیانی حصہ کا سایہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ پرلطف ہوں گے۔

ان اوقات الجنۃ کغدوات الصیف لا یکون فیہ حر و لا برد۔ (بحارالانوار ۸: ۱۰۹)

جنت کے اوقات موسم بہار کی صبح سویرے کی طرح ہوں گے۔ نہ گرمی نہ سردی۔

لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا ﴿۱۳﴾ (۷۶ انسان: ۱۳)

جنت میں نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا، نہ سردی کی شدت۔

۴۔ وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ: بہتے پانی کا مطلب یہ ہے کہ پانی اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے تو اس کی صورت آبشار کی ہو سکتی ہے۔

چونکہ پانی کا جاری ہونا اور صورت ہے اور بہنا اور صورت ہے۔ قرآن مجید میں جنت کے پانی کا مختلف تعبیروں کے ساتھ ذکر ملتا ہے:

فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ (۴۷ محمد: ۱۵) پانی کی نہریں ہوں گی۔

ii۔ فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ (۸۸ غاشیہ: ۱۲) اس میں جاری چشمے ہوں گے۔

iii۔ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا۔ (۷۶ دھر: ۶) یہ ایسا چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور خود اسے (جیسے چاہیں) جاری کر دیں گے

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوموار کے دن مبعوث برسالت ہوئے۔ بدھ کے دن کی صبح کو میں نے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تھے تو میں ان کے دائیں طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھتا تھا۔ (بعض دیگر روایات میں اس کے بعد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی شمولیت کا ذکر ہے) مردوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ اللہ نے میرے بارے میں آیت وَ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ ۬ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ نازل فرمائی۔

ملاحظہ ہو: تاریخ دمشق ۲: ۴۸۔ مناقب خوارزمی حدیث۸ فصل رابع۔ اس موضوع کی حدیث بروایت ابن مسعود ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد باب حالات حضرت خدیجہ۔ شواہد التنزیل ذیل آیت۔


آیات 28 - 31